تازہ ترینخبریںسیاسیات

ارشد شریف کو اداروں نے شیشے میں اتارا، وہ پارٹی بن گیا تھا، دوست کا انکشاف

بطور صحافی شاید ارشد سے یہی غلطی ہوئی کہ وہ پارٹی بن گیا اور ریڈ لائن کراس کرگیا۔ یہ الفاظ ہیں شہید صحافت ارشد شریف کے دوست، انکے کولیگ اور ساتھی صحافی عاطف خان کے۔ ارشد شریف کے قتل کے پیچھے جو بھی محرک تھا تاہم انکے صحافتی کرئیر کے آخری سال متنازعہ تھے جب ان پر جانبداری کے الزمات بھی عائد کیئے گئے۔

عاطف خان کا ارشد شریف کے قتل کے وقت لکھا گیا ایک کالم پھر منظر عام پر ہے جس میں انہوں نے ارشد شریف سے متعلق صورتحال کو کئی نئی جہتیں دیں ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ ارشد بلکہ ہماری پوری ٹیم کا پیشہ ورانہ زوال اس وقت شروع ہوا جب مطیع اللہ جان نے ڈان چینل پر ارشد کے منع کرنے کے باوجود اپنے پروگرام ’اپنا اپنا گریبان‘ میں صحافی رؤف کلاسرا کو بطور مہمان مدعو کیا۔

ارشد مطیع کو کہہ رہا تھا کہ روف کلاسرا سے اس کے گھریلو تعلقات ہیں اس لیے ان کی شریکِ حیات جو ایک سرکاری عہدے پر فائز ہیں، ان کے حوالے سے اور ان کی کسی مبیّنہ کرپشن کے حوالے سے بات نہیں کرنی چاہیے۔ ارشد سینئر صحافی ضیاالدین صاحب کا قول اکثر سنایا کرتا تھا کہ ’ڈاگز ڈانٹ ایٹ ڈاگز‘۔

لیکن مطیع اللہ بہت پُراعتماد تھا کہ ایسا نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ مطیع اللہ نے اب تک کتنے ہی سیاستدانوں اور طاقتوروں کے بخیے ادھیڑ دیے تھے اور اس پروگرام میں بھی وہی ہوا۔ بات کرتے کرتے مطیع اللہ جان رؤف کلاسرا کی ذاتی زندگی پر آگئے۔ انہوں نے کرپشن کے کیا جواب دینے تھے بلکہ انہوں نے تو ڈان پر ہی الزامات کی بوچھاڑ کردی۔ تلخی بڑھی اور اس حد تک بڑھ گئی کہ سیاست شروع ہوگئی اور ارشد سمیت ان کی پوری ٹیم ڈان سے فارغ کردی گئی۔یہ فیصلہ ہم سب کے لیے بطور صحافی زوال کا آغاز ثابت ہوا۔

ہم میں سے کئی لوگوں نے تو کسی نہ کسی طرح گزارا کرلیا مگر ارشد جس کی 3 شادیاں تھیں وہ مشکل میں آگیا۔ اگرچہ اس کو والد کی پینشن ملتی تھی لیکن ارشد کو کام چاہیے تھا۔ ڈان میں بطور بیورو چیف کام کرتے ہوئے اس کے تعلقات تو تھے اور وہ ہفتہ وار آبپارہ میٹنگ میں بھی جاتا تھا۔ بس پھر اسے ایسا شیشے میں اتارا گیا کہ وہ بہک گیا۔ یا یوں کہیں کہ اس کے اندر کا سپاہی جاگ گیا۔پھر ایک ایسا وقت آیا کہ ارشد سیلیبرٹی بن گیا۔ میں کئی سال پہلے اس کے دفتر میں تھا جب ایک ساتھی نے کہا کہ ارشد جلدی کرو تمہارے بغیر پنڈی کا پروگرام شروع نہیں ہوگا۔ یہ بات اس صحافی دوست نے بطور ازراہ مذاق کہی تھی لیکن اس میں مبالغہ کم ہی تھا۔

ارشد کو ایک ایسی جگہ پہنچا دیا گیا تھا جہاں لاکھوں لوگ اس کی بات کو سچ مانتے تھے۔ اس کے فالوور تھے اور یہ کسی صحافی کی معراج ہوتی ہے۔

کچھ عرصے قبل مجھے پتا چلا کہ ارشد کو وزارت کا لالچ دیا جا رہا ہے تو میں نے اسے متنبہ کرنے کو کوشش کی مگر اس سے میرا رابطہ نہیں ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب مشہوری ملے تو لوگ اکساتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان میں صحافت مشکل ترین پیشہ ہے اور یہاں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کب نوکری سے فارغ کردیا جائے۔ ایسے میں انسان بہک ہی جاتا ہے۔ادارے اس طرح شیشے میں اتارتے ہیں کہ انسان خود کو ملک کا مسیحا سمجھنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ان کا کام ہے اور وہ اس میں ماہر ہیں۔ بطور صحافی شاید ارشد سے یہی غلطی ہوئی کہ وہ پارٹی بن گیا اور ریڈ لائن کراس کرگیا۔ارشد کے جانے سے ملک ایک بہت بڑے صحافی سے محروم ہوگیا اور حقیقت یہ ہے کہ ارشد کا کوئی متبادل نہیں، کوئی نعم البدل نہیں۔

جواب دیں

Back to top button