ایک مرد ریپ کیوں کرتا ہے ؟ ریپسٹ مرد کی نفسیات کیا ہوتی ہیں ؟

اس تکلیف دہ حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جنسی زیادتی یا ریپ ایک ایسا خوف ناک جرم ہے، جس کا نشانہ بننے والے انسان کو ناقابل تصور حد تک جسمانی اور نفسیاتی اذیت اور تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ اثرات برس ہا برس تک ختم نہیں ہوتے۔
ایسے زیادہ تر متاثرین بے قصور ہونے کے باوجود کافی حد تک خود کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور اکثر خود سے نفرت اور غصے کی حالت میں رہتے ہیں۔ کسی انسان کا ریپ کیا جانا اسے نفسیاتی طور پر عموماﹰ ایسے ذہنی دباؤ اور مسلسل دھچکے کی کیفیت میں ڈال دیتا ہے، جسے ماہرین پوسٹ ٹرامیٹک سنڈروم ڈس آرڈر یا پی ٹی ایس ڈی کہتے ہیں، جو ایک باقاعدہ نفسیاتی بیماری ہے۔
لیکن کیا کسی نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ ریپ کے بعد کوئی ریپسٹ خود اپنے بارے میں کیا سوچتا ہے؟ مرد عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کیوں کرتے ہیں؟ یہ ایک پیچیدہ سوال ہے، جس کے کئی جوابات ہیں۔ اس لیے کہ کوئی بھی انسان کئی مختلف عوامل کے نتیجے میں ریپ کا مرتکب ہوتا ہے۔
ریپ کے اسباب کا تعین
ماہرین نفسیات کے مطابق کسی بھی ریپسٹ کے جرم کے اسباب کی تشخیص کے لیے اس عمل کی وجوہات کا ٹھوس تعین اور ان وجوہات کی شدت طے کرنا بہت مشکل ہے۔ تاہم کئی مختلف نفسیاتی اور طبی جائزوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ریپ کے مرتکب افراد میں کسی کا جسمانی یا نفسیاتی دکھ محسوس کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہوتا ہے، وہ تقریباﹰ بیماری کی حد تک خود پسندی کا شکار ہوتے ہیں اور ان میں خاص طور پر خواتین کے خلاف جارحانہ جذبات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں
زہریلی مردانیت
امریکی ریاست ٹینیسی کی یونیورسٹی آف دا ساؤتھ کی نفسیات کی ریسرچر اور پروفیسر شیری ہیمبی نے ایک چینل کو ایک انٹرویو میں بتایا، ”کئی واقعات میں جنسی حملہ جنسی جذبات کی تسکین یا جنسی دلچسپی کو پورا کرنے کے لیے نہیں کیا جاتا، بلکہ اس کا مقصد دوسرے لوگوں کو ذلت آمیز طریقے سے مغلوب کرنا ہوتا ہے۔‘‘
پروفیسر شیری ہیمبی، جو امریکی سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن کے جریدے ‘نفسیات اور تشدد‘ کی بانی مدیرہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘مردوں میں ان کی مردانگی سے متعلق سوچ ایک ایسا زہر ہے، جو ریپ کے جرم کو ہوا دیتا ہے۔ کئی ریپسٹ اور دیگر جنسی جرائم کر مرتکب افراد نوجوان ہوتے ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ اپنے ساتھیوں میں اپنی مردانہ ساکھ بہتر بنا سکیں۔ اس لیے کہ ان کے لیے یہ بات انتہائی پریشان کن ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے دوستوں یا قریبی حلقوں کی نظر میں جنسی طور پر ناتجربہ کار ہوتے ہیں۔‘
ریپ ایک پرتشدد مجرمانہ فعل
ماہرین نفسیات کے مطابق یہ طے کرنا بہت ضروری ہے کہ ریپ کو کوئی ایسا جرم نہ سمجھا جائے، جس کی وجہ صرف جنسی خواہشات بنتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق کسی پر جنسی حملہ کرنا ایک پرتشدد مجرمانہ فعل ہے اور اس کی کوئی بھی دوسری قانونی وضاحت نہیں کی جا سکتی۔
اگرچہ ریپ کے مرتکب کئی مجرموں میں نفسیاتی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں، تاہم کلینیکل سائیکالوجی کے ماہرین کے مطابق ایسا کوئی نفسیاتی عارضہ ابھی تک دریافت نہیں ہوا، جو کسی مجرم کو اس امر پر مجبور کرے کہ وہ کسی کا ریپ کرے
خواتین کے خلاف جارحیت
جنسی زیادتیوں کے مرتکب مردوں میں خواتین کے لیے تحقیر اور نفرت کے جذبات عام ہوتے ہیں۔ وہ خواتین کو اکثر ایسی ‘جنسی چیزوں‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، جن پر غالب آ کر وہ اپنی جنسی خواہشات کو بھی پورا کر سکتے ہوں۔
اس کے علاوہ ایسے مجرم اپنے طور پر کئی مفروضے بھی گھڑ لیتے ہیں۔ مثلاﹰ اگر کسی خاتون نے ان کے ساتھ جنسی تعلق سے انکار کیا ہو، تو ان کے نزدیک اس کا مطلب ‘ہاں‘ ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انکار کرنے والی کوئی بھی خاتون دراصل انہیں چیلنج کر رہی ہے







