تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

کیا آپ جانتے ہیں کہ سگریٹ کی ایجاد کس نے کی تھی ؟

سفید، تین انچ لمبی اور ایک بچے کی انگلی جتنی چوڑی۔ بات ہو رہی ہے سگریٹ کی جو دنیا بھر میں شاید سب سے زیادہ بدنام مصنوعات میں سے ایک ہے۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ سگریٹ کس نے ایجاد کی؟ کیا آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال ہے کہ تمباکو نوشی کی وجہ سے ہونے والی اموات کے لیے کیا اس شخص کو ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟

سنہ 2000 تک کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں پھیپھڑوں کے کینسر سے ہر سال تقریباً دس لاکھ افراد ہلاک ہو رہے تھے اور ان میں سے تقریباً پچاسی فیصد لوگوں میں اس کینسر کی وجہ صرف تمباکونوشی تھی۔

امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی سے وابستہ رابرٹ پركٹر کہتے ہیں،’انسانی تہذیب کی تاریخ میں سگریٹ سب سے خطرناک مصنوعات ہے۔ بیسویں صدی میں تمباکو نوشی کی وجہ سے تقریباً دس کروڑ لوگ مر چکے ہیں‘۔

’ٹوبیكو ان ہسٹری‘ نامی کتاب کے مصنف اردن گڈمین کے خیال میں اگرچہ وہ ایسے کسی شخص خاص کا نام لینے سے اجتناب کریں گی لیکن ’امریکہ کے جیمز بکانن ڈیوک سگریٹ کے ایجاد کے ذمہ دار تھے‘۔

جیمز بکانن ڈیوک نہ صرف سگریٹ کو اس کی موجودہ شکل دینے کے ذمہ دار ہیں بلکہ انہوں نے سگریٹ کی مارکیٹنگ اور ترسیل میں بھی اہم کردار ادا کیا جس سے ساری دنیا میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔

سنہ 1880 میں چوبیس سال کی عمر میں ڈیوک نے ہاتھ سے بنی سگریٹ کے کاروبار میں قدم رکھا جو اس وقت بہت وسیع کاروبار نہیں تھا۔ شمالی كیرولائنا کے شہر ڈرہم میں کچھ لوگوں نے مل کر ’ڈیوک آف ڈرہم‘ کے نام سے سگریٹ بنانے کی شروعات کی جس کے دونوں کونوں کو موڑ کر بند کیا جاتا تھا۔

دو سال بعد ڈیوک نے جیمز بونسیك نامی نوجوان مكینك کے ساتھ کام کرنا شروع کیا جس کا کہنا تھا کہ وہ مشین سے سگریٹ بنا سکتا ہے۔ ڈیوک کو بونسیك کی اس بات میں کاروبار کا ایک اچھا موقع دکھائی دیا۔ انہیں یقین تھا کہ ہاتھ سے بنی چھوٹے یا بڑے سائز کی سگریٹ کی جگہ لوگ مشین سے بنی، ایک ہی شکل کی سگریٹ پینا پسند کریں گے۔

ساتھ ہی اس وقت ڈیوک کے کارخانے میں جہاں لڑکیاں ایک شفٹ میں ہاتھ سے تقریباً دو سو سگریٹ بناتی تھیں، وہیں اس نئی مشین سے ایک دن میں ایک لاکھ بیس ہزار سگریٹ تیار ہونے لگے جبکہ اس وقت امریکہ میں صرف چوبیس ہزار سگریٹ کی ہی کھپت ہوتی تھی۔

اردن گڈمین کہتے ہیں،’مسئلہ یہ تھا کہ سگریٹ کی پیداوار زیادہ تھی لیکن فروخت کم۔ اس لیے ڈیوک کو اب سگریٹ فروخت کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنے تھے‘۔

وہ طریقہ تھا اشتہارات اور مارکیٹنگ۔ جیمز ڈیوک نے گھڑ دوڑ کو سپانسر کرنا، مقابلۂ حسن میں مفت سگریٹ تقسیم کرنا اور جرائد میں اشتہار دینا شروع کیا۔ سنہ 1889 میں ہی سگریٹ کی مارکیٹنگ پر انہوں نے آٹھ لاکھ ڈالر خرچ کیے جو آج تقریباً دو کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کے برابر ہے۔

صفائی سے بنی سگریٹ اور ان کے صحیح تشہیر، جیمز ڈیوک کی ابتدائی کامیابی کی یہی دو وجوہات تھیں۔ ایک اشتہار میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ہاتھ سے اور تھوک کے استعمال سے بنائی جانے والی سگار کے مقابلے میں مشین سے بنائی سگریٹ زیادہ صفائی سے بنائی جاتی ہے اور جیمز ڈیوک کی امید کے عین مطابق لوگوں کو مشین سے بنی سگریٹ ہی زیادہ پسند آئی۔

امریکہ میں پاؤں جمانے کے بعد جیمز ڈیوک نے برطانیہ کا رخ کیا۔ سنہ 1902 میں انہوں نے برطانیہ کی امپيريل ٹوبیكو کمپنی کے ساتھ مل کر برٹش امریکن ٹوبیكو نامی کمپنی قائم کی۔

کمپنی کی طرف سے فروخت کی جانے والی سگریٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی تھی۔، صرف مختلف صارفین کے حساب سے ان کی پیکیجنگ اور مارکیٹنگ حکمت عملی بدلی جاتی تھی۔

مصنف اردن گڈمین کہتے ہیں،’میكڈانلڈز اور سٹاربكس کے طور پر ہم آج جسے گلوبلائزیشن کہتے ہیں، اس کے بانی ڈیوک اور ان کی سگریٹ تھے‘۔

دنیا بھر میں آج بھی سگریٹ نوشی بڑھ رہی ہے اور ترقی پذیر ممالک میں سگریٹ کی طلب میں ہر سال تین اعشاریہ چار فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔

جواب دیں

Back to top button