Editorial

او آئی سی کا اسرائیل کو کٹہرے میں لانے کا مطالبہ

فلسطین میں اس وقت سسکتی انسانیت کے نوحے جابجا بکھرے پڑے ہیں، ہر ایک گھائل ہے، زخموں سے چُور، غموں سے چُور، اپنوں کے بچھڑ جانے کے غم، زندگی بھر کے لیے معذور ہوجانے کے دُکھ سے دوچار، افسوس اُن مہذب کہلائے جانے والے ممالک پر ہوتا ہے، جو مفادات کے تابع رہ کر اسرائیلی کو مظلوم گردان رہے اور فلسطینیوں کو ظالم کے طور پر پکار رہے ہیں۔ امریکی صدر جوبائیڈن بھی انہی حکمرانوں میں شامل ہیں، جنہوں نے اسرائیلی مظالم پر آنکھیں بند کی ہوئی ہیں، وہ تو اسرائیل کے موقف کی تائید کرتے ہوئے غزہ میں اسپتال پر اسرائیلی حملے کو بھی فلسطینیوں کے کھاتے میں ڈال چکے۔ تاریخ ایسوں کو ظالموں کی فہرست میں سب سے اوپر رکھے گی۔ 12دن کے دوران ہزار سے زائد معصوم بچوں کو ظالم، درندہ صفت، سفّاک اسرائیلی فوج شہید کر چکی ہے، خواتین کی بڑی تعداد بھی جام شہادت نوش کر چکی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے پر مزید 65فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا، جس کے بعد 7اکتوبر سے حراست میں لیے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد 750ہوگئی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں اب تک شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 3500سے تجاوز کر گئی ہے ، 13ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ 2ہزار اسرائیلی بھی مارے جاچکے ہیں۔ اس امر کی تصدیق اسرائیلی حکام نے بھی کی ہے۔ اس نئی جنگ کا آغاز اُس وقت ہوا جب لگ بھگ دو ہفتے قبل فلسطینی حریت پسند تنظیم حماس نے اسرائیل پر 5ہزار راکٹ فائر کیے۔ اسرائیل اچانک حملوں پر بوکھلا گیا۔ پلٹ کر اس نے پوری شدّت سے وار کیا اور 3500جانیں یہ وحشی نگل چکا ہے۔ فلسطینیوں کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ ظالم اور سفّاک اسرائیل سے آزادی اور خودمختاری چاہتے ہیں، جس نے نصف صدی سے زائد عرصے سے اُن کا عرصۂ حیات تنگ کیا ہوا ہے۔ کیا کیا مظالم نہیں ڈھائے۔ کتنے ہی بے گناہ فلسطینی مسلمانوں کو شہید کرچکا۔ کئی آبادیوں کو صفحہ ہستی سے مٹاچکا۔ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل مسجد الاقصیٰ کے تقدس کی پامالی اس کا وتیرہ ہے۔ اس کے ظلموں کی فہرست خاصی طویل ہے اور عصرِ حاضر میں دُنیا کی سفّاک ریاستوں میں وہ سب سے ٹاپ پر ہے۔ اتنا ظلم تو معلوم انسانی تاریخ میں کسی ملک نے کسی کے ساتھ روا نہیں رکھا، جو اسرائیل نے اختیار کر رکھا ہے۔ ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، جب یہ حد سے بڑھ جائے تو اس کے خلاف عَلَم بغاوت بلند ہوتا ہے اور حماس یہی کر رہی ہے۔ وہ اپنے مظلوم فلسطینیوں کو اسرائیل سے آزادی دلانا چاہتی ہے اور اس عظیم مشن پر گامزن ہے۔ تعصب کی عینکیں چڑھائے ممالک اور لوگ فلسطینیوں کو ظالم اور اسرائیل کو مظلوم ٹھہرا رہے ہیں۔ پوری دُنیا کے دردمند دل رکھنے والے اور حق کو حق کہنے والوں کی بھی کمی نہیں، ایسے لوگ اور ممالک فلسطینیوں کی کھلی حمایت کر رہے اور اُن کی اسرائیلی تسلط سے آزادی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ اس ضمن میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ غزہ میں جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لایا جائے۔ غزہ کی صورت حال پر جدہ میں اسلامی تعاون تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کا غیر معمولی اجلاس ہوا۔ اعلامیے کے مطابق او آئی سی نے غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بم باری کو جنگی جرم اور منظم ریاستی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی ہے۔ او آئی سی نے اسرائیل سے فلسطینیوں کے خلاف جارحیت بند کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ غزہ پٹی کا محاصرہ فوری ختم کیا جائے، او آئی سی نے عالمی برادری سے غزہ پٹی کے لیے امداد فوری بحال کرنے کی اپیل کی ہے۔ او آئی سی کا کہنا ہے کہ عالمی برادری اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی سے تعاون کرے، غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بم باری جنگی جرم ہے، عالمی برادری جنگی جرائم پر اسرائیل کو کٹہرے میں لائے، غزہ پٹی سے فلسطینیوں کے نکل جانے کے اسرائیلی مطالبے کو مسترد کرتے ہیں۔ او آئی سی نے کہا ہے کہ عالمی برادری مشرق وسطیٰ میں امن کوششیں تیز کرے، آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم نے اسرائیلی کے حامیوں کی طرف سے غزہ میں جاری جنگ پر اسرائیل کو استثنیٰ دینی کی مذمت بھی کی ہے۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ہنگامی اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا کہ فلسطینی عوام کے خلاف وحشیانہ جارحیت کی حمایت کرنے والے بین الاقوامی موقف کی مذمت کرتے ہیں جو قابض طاقت کو معاونت فراہم کرتے ہوئے اس کو استثنیٰ دیتے ہیں۔ او آئی سی نے پُرتشدد کارروائیاں روکنے میں ناکامی پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی بھی شدید مذمت کی ہے جبکہ سیکرٹری جنرل او آئی سی نے اپنے بیان میں کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم مسئلہ فلسطین کا فوری حل چاہتی ہے، اسرائیل مسلسل عالمی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے، اسرائیلی فورسز نے نہتے فلسطینی عوام پر حملہ کیا، جس سے فلسطینی عوام کو نامساعد حالات کا سامنا ہے اور انسانی جانوں کا ضیاع ہورہا ہے۔ حسیم ابراہیم طحہ نے کہا کہ او آئی سی فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرتی ہے، امت مسلمہ فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے، بین الاقوامی برادری مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے آگے بڑھے، اسرائیلی فورسز کا غزہ میں اسپتال پر حملہ شرمناک عمل ہے، فلسطینیوں کو ان کے حقوق فراہم کئے جائیں، اسرائیل 1967ء کی قرارداد کا احترام کرتے ہوئے دو ریاستی حل کو فوری عملی جامہ پہنائے۔ نجی ٹی وی کے مطابق اعلامیہ میں فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حقوق کی حمایت، حق خود ارادیت اور فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے عزم پر زور دیا گیا ہے۔ اجلاس میں پاکستان کے وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ پاکستان فلسطین پر حملے کی پُرزور الفاظ میں مذمت کرتا ہے، اسرائیل فلسطین میں فاشسٹ ازم کا مظاہرہ کر رہا ہے، اسرائیل بے گناہ افراد کا خون بہا رہا ہے، اسرائیلی فورسز مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی میں ملوث ہیں، اقوام متحدہ مسئلہ فلسطین کو فوری حل کرے، پاکستان فلسطینی بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے کہا کہ ہر وہ شخص جس نے اسرائیل کو یہ بدترین جنگ چھیڑنے کے لیے موقع دیا، اسے ہتھیار فراہم کیے اور اس گھنائونے جرم کے ارتکاب میں اس کی مدد کے لیے فوج بھیجی وہ اس جرم میں برابر کا شریک ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ اسرائیل، امریکہ اور چند مغربی ممالک کی مکمل معاونت سے یہ سب کر رہا ہے۔ مزید برآں پاکستان نے غزہ میں جنگ بندی کے لئے روس کی طرف سے پیش کردہ قرار داد کو منظور کرنے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ناکامی پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ خلیج تعاون کونسل نے بھی دونوں فریقوں سے جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ کونسل نے غزہ کا محاصرہ فوری ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ البدیوی نے اردن اور مصر کے تعاون سے امن کی بحالی کے لیے سعودی اقدام کے لیے خلیج تعاون کونسل کی حمایت پر زور دیا۔ سعودی عرب نے بھی فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ فوری جنگ بند اور غزہ کی پٹی کی ناکہ بندی ختم کی جائے۔ فرمانروا شاہ سلمان کے زیر صدارت ہونے والے کابینہ کے اجلاس کے دوران مطالبہ کیا گیا کہ عرب امن منصوبہ کے تحت امن عمل کو دوبارہ شروع کیا جائے، جس کے تحت ایک 1967ء کی سرحدوں کے اندر ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے، جس کا دارالحکومت مشرقی بیت المقدس ہو۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انسانی قوانین میں صحت کی سہولتوں کے مراکز محفوظ ہوتے ہیں اور انہیں نشانہ نہیں بنایا جاسکتا جب کہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس نے اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عام شہریوں اور ہسپتالوں کو فوری محفوظ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف ہسپتال پر اسرائیلی حملے کے بعد دنیا بھر کے مختلف ممالک میں اسرائیل کے خلاف غم و غصہ پایا گیا۔ او آئی سی نے اسرائیلی مظالم کے خلاف توانا آواز اُٹھائی ہے۔ دُنیا کو اس پر توجہ دینی چاہیے۔ فلسطین اس وقت سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ اس کے حل کے لیے حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ضروری ہے کہ تعصب کی عینک ایک طرف رکھتے ہوئے حق اور انصاف پر مبنی فیصلے کیے جائیں۔ فلسطینیوں کو اسرائیلی تسلط سے نجات دلائی جائے۔ اسرائیل کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔
پاکستان کا ابابیل ویپن سسٹم کا کامیاب تجربہ
پاکستان ایٹمی ملک ہے اور جوہری صلاحیت اس نے اپنے دفاع اور خطے میں طاقت کے توازن کے لیے حاصل کی ہے۔ وطن عزیز امن پسند ملک ہے اور چند ایک کو چھوڑ کر سب ملکوں کے ساتھ بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ پاکستان کے لگ بھگ تمام ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں، جہاں وطن عزیز کے دوست ممالک کی تعداد زیادہ ہے، وہیں کھلے اور چھپے دشمنوں کی بھی کمی نہیں۔ پڑوسی ملک بھارت قیام پاکستان سے ہی دشمنی کے سلسلے کو دراز رکھا ہوا ہے۔ اُسے پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا اور وہ اس کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف عمل رہتا ہے۔ پاکستان کے خلاف کیا کیا سازشیں نہیں رچاتا۔ بھارت نے جوہری صلاحیت حاصل کی تو خطے میں طاقت کے توازن کے لیے ناگزیر ہوگیا تھا کہ پاکستان بھی ایٹمی قوت کے حصول کو ممکن بنائے۔ پاکستان نے 28مئی 1998ء کو ایٹمی تجربات کرکے اپنے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا تھا اور پہلی اسلامی ایٹمی قوت ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ کھلے اور چھپے دشمنوں کے باعث وطن عزیز کے لیے جوہری حوالے سے اپنی طاقت اور صلاحیتوں میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتا ہے اور پاکستان اس کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ کئی جوہری ہتھیاروں، میزائلوں وغیرہ کے کامیاب تجربے کیے جاچکے ہیں۔ گزشتہ روز اسی سلسلے میں پاکستان نے ابابیل ویپن سسٹم کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان نے ابابیل ویپن سسٹم کا کامیاب تجربہ کرلیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق میزائل سسٹم کا مقصد خطے میں سٹرٹیجک استحکام کو بڑھانا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ویپن سسٹم لانچنگ کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، سٹرٹیجک پلانز ڈویژن، سٹرٹیجک فورسز کمانڈ کے سینئر افسروں، سائنس دانوں اور انجینئرز نے دیکھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق اس تجربے کا مقصد مختلف ڈیزائن، تکنیکی پیرامیٹرز اور ہتھیاروں کے مختلف نظاموں کی کارکردگی کا جائزہ لینا تھا۔ چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل ساحر شمشاد مرزا نے کامیاب تجربے میں تعاون پر تمام لوگوں کی تکنیکی صلاحیت، لگن اور عزم کو سراہا۔ علاوہ ازیں صدر، وزیراعظم پاکستان اور سروسز چیفس نے بھی اس کامیابی پر سٹرٹیجک فورسز کے تمام ارکان کو مبارک باد دی۔ اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ابابیل ویپن سسٹم کے کامیاب تجربے پر پاکستانی قوم، پاک افواج، سائنس دانوں اور انجینئرز کو مبارک باد دی ہے۔ یہ تجربہ سٹرٹیجک استحکام کو بڑھانے کی خاطر کیا گیا ہے۔ اس نظام کا کامیاب تجربہ یقیناً بڑی کامیابی میں شمار ہوتا ہے اور اس کی تیاری میں مگن، مصروف رہنے والے اور معاونت کرنے والے تمام افراد یقیناً مبارک باد کے مستحق ہیں، جو ملکی دفاع کو مزید مضبوط کرنے میں اپنا بھرپور حصّہ ڈال رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button