وزیراعظم کی خسارے سے دوچار اداروں کی نجکاری کا عمل تیز کرنے کی ہدایت

ملک عزیز کی معیشت اس وقت مشکل صورت حال سے دوچار ہے۔ حکومت کو نظام مملکت چلانے کے لیے بے پناہ چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ افسوس ہمارے اکثر سرکاری اداروں میں کرپشن نے جو تباہ کاریاں مچائی ہیں، اس امر نے ان اداروں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ کس کس کا ذکر کیا جائے۔ اکثر سرکاری ادارے قومی خزانے پر مستقل بوجھ بنے ہوئے ہیں، یہ ماضی میں کبھی منافع بخش ثابت ہوتے تھے اور ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالتے ہیں، لیکن بدعنوانی کے عفریت نی ان کو وقت گزرنے کے ساتھ بے پناہ نقصانات سے دوچار کیا ہے اور یہ سالہا سال سے بدترین خسارے کا سامنا کررہے ہیں، اوپر سے نیچے تک پائی جانے والی کرپشن کی جونک نے ان تمام اداروں کا خون چُوس لیا ہے، یہ مستقل خسارے میں جارہے ہیں۔ یہاں یہ ریت ہے کہ کسی شہری کو اگر کسی سرکاری ادارے سے کوئی کام ہو تو وہ بغیر رشوت دیے نہیں ہوتا۔ اس کے لیے بھی لوگوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، تب جاکر اُن کی مُراد پوری ہوتی ہے۔ سالہا سال سے قومی خزانے پر بوجھ بننے والے اداروں کی نج کاری کے حوالے سے باتیں سامنے آتی رہیں، لیکن یہ بیل منڈھے چڑھتے دِکھائی نہ دی۔ حکومتی سطح پر سرگرمیاں دِکھائی دیں، لیکن ہو کچھ نہ سکا۔ اسٹیل مِل، پی آئی اے اور دیگر کا ماضی انتہائی شان دار رہا ہے۔ یہ انتہائی نفع بخش ادارے تھے، پھر کرپشن کی دیمک نے انہیں آلیا اور آہستہ آہستہ اسے چاٹتی گئی، یہاں تک کہ یہ اب تباہی کے کنارے آکھڑے ہوئے۔ ایسے اداروں کی اب پھر سے نجکاری کرنے کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں، تاکہ قومی خزانے کو ہونے والے نقصانات میں کمی لائی جاسکے۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے پی آئی اے کے معاملات پر فیصلہ سازی میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ قومی ایئر لائن کی نج کاری کے عمل کو شفاف اور تیز تر کیا جائے تاکہ ملکی خزانے کو مزید نقصان سے بچایا جائے۔ انوار الحق کاکڑ کی زیر صدارت پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے حوالے سے اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں پی آئی اے کے مختلف امور پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں نگراں وزیر نج کاری فواد حسن فواد، مشیر احد خان چیمہ، متعلقہ اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی مالی صورتحال اور نج کاری کے عمل کی پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ پی آئی اے کی نجکاری میں حائل تمام رکاوٹوں کو ہٹا دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ قومی ایئرلائن کی نجکاری کے عمل کو شفاف اور تیز تر کیا جائے تاکہ ملکی خزانے کو مزید نقصان سے بچایا جائے۔ وزیراعظم نے پی آئی اے کے معاملات پر فیصلہ سازی میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک معاشی مشکلات کا شکار ہے اور قومی اداروں کا خسارہ ان مشکلات میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ عوام کے ٹیکسوں سے ان اداروں کا خسارہ پورا کرنا مزید ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے اور خسارے کے شکار دیگر سرکاری اداروں (SOEs)کی نجکاری کے عمل کو مزید تیز کیا جائے، ہوا بازی شعبے کی اصلاحات سے عوام کو بہترین سفری سہولتیں فراہم کی جاسکیں گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ خسارے کے ذمے داروں کا تعین کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ اس کے تدارک کے لیے اقدامات کیے جاسکیں۔ انہوں نے ہدایت کی کہ نجکاری کے عمل کی شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ آہ! بدعنوانی کا عفریت ہمارے کیسے کیسے شاندار اداروں کو برباد کرچکا، ہر عروج کو زوال ہے، یہ مثال قومی ایئرلائن پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے، ایک زمانہ ایسا بھی گزرا ہے کہ جب پی آئی اے کا شمار دُنیا کی بہترین ایئرلائنز میں ہوتا تھا، دُنیا کی بڑی بڑی ایئرلائنز کی آبیاری میں اس کا کلیدی کردار رہا ہے، پی آئی اے سے ان ایئرلائنز کے عملے نے تربیت حاصل کی اور دُنیا میں اپنی بہترین خدمات کے باعث نیک نامی کمائی اور ان اداروں کو پروان چڑھانے والا ادارہ آج اپنی قسمت پر ماتم کناں ہے۔ اس ادارے کی سربراہی اگر کسی شفاف کردار کے حامل شخص کے سپرد ہوتی تو وہ اسے پھر سے اپنے پیروں پر کھڑا کرسکتا تھا، لیکن ہر بار امید کے ساتھ سربراہان کو متعین کیا جاتا رہا، لیکن وہ معیار پر پورا اُترنے میں ناکام رہے، پی آئی اے کی موجودہ صورت حال دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے اور اب اس سمیت دیگر خسارے سے دوچار اداروں کی نج کاری کی اطلاعات ہیں، جو ظاہر ہے کہ دل کو مناسب نہیں لگتیں، لیکن کیا کیا جائے، آخر کب تک ان کا بوجھ قومی خزانے پر پڑتا رہے گا، موجودہ معاشی حالات کے تناظر میں خسارے کے شکار سرکاری اداروں (SOEs)کی نجکاری ناگزیر ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں۔ ضروری ہے کہ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایسے اداروں کی نج کاری کے عمل کو تیز تر کیا جائے، تاکہ جلد از جلد یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ سکے اور قومی خزانے پر پڑنے والے بوجھ میں کمی واقع ہوسکے۔
پاکستان کا آلودہ ممالک میں تیسرا نمبر
فضائی آلودگی ملک عزیز کو لاحق سنگین مسئلہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس حوالے سے صورت حال گمبھیر شکل اختیار کرتی چلی جارہی ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کے باعث موسمیاتی تغیر سے جہاں شدید گرمی اور شدید سردی کا وطن عزیز کے عوام کو سامنا ہے، وہیں تیز بارشیں، سیلاب اور زلزلے ایسی آفات بھی اسی کا شاخسانہ ہیں، جن سے بڑے نقصانات سامنے آتے رہتے ہیں، گزشتہ برس ہی ملک میں بدترین سیلاب آیا، جس میں لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے، بالخصوص سندھ زیادہ متاثر ہوا، 1700سے زائد شہری جاں بحق ہوئے، دیہات کے دیہات تباہ ہوگئے، لاکھوں مویشی مارے گئے، ملک عزیز ایسا خطہ ہے، جہاں آفتوں کے اندیشے منڈلاتے رہتے ہیں۔ گندگی، دھواں، شور ماحولیاتی آلودگی کو بڑھاوا دیتے ہیں، ملک میں ہر طرح کی آلودگی شدّت کے ساتھ پائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے شہر اکثر دُنیا کے آلودہ ترین بلادوں میں سرفہرست رہتے ہیں۔ کبھی کراچی تو کبھی لاہور اس فہرست میں ٹاپ پر ہوتے ہیں۔ یہ امر جہاں دُنیا بھر میں وطن عزیز کی جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے، وہیں ہمارے شہریوں کی غیر ذمے داریوں کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی ملک میں بے پناہ مشکلات کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ اب تازہ اطلاع کے مطابق پاکستان آلودہ ممالک کی فہرست میں ایئر کوالٹی انڈیکس کی شرح 155کے ساتھ تیسرے نمبر پر آگیا۔ پاکستان میں آلودہ شہروں کی فہرست میں لاہور کی پہلی پوزیشن برقرار رہی، صوبائی دارالحکومت میں اے کیو آئی کی شرح 155ریکارڈ کی گئی۔ ماہرین نے شہر میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی مضر صحت قرار دیتے ہوئے شہریوں کو ماسک لگانے کی ہدایت کردی۔ علاوہ ازیں پنجاب حکومت نے لاہور سے فضائی آلودگی کے خاتمے کے لیے فضا میں اسپرے کرانے کا فیصلہ کرلیا۔ بلدیہ عظمیٰ لاہور نے اس مقصد کے لیے پنجاب کی نگراں حکومت سے میٹ کوئین کے نام سے تین مخصوص گاڑیاں حاصل کرلی ہیں جو فضا میں پانی کا اسپرے کریں گی جب کہ ان گاڑیوں کو فعال بھی کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کے ایئر کوالٹی انڈیکس کی شرح 155کے ساتھ تیسرے نمبر پر آنا بحیثیت قوم ہمارے لیے اچھی اطلاع ہرگز قرار نہیں دی جاسکتی۔ آلودگی کے عفریت کو قابو نہ کیا گیا تو آگے چل کر صورتحال مزید سنگین شکل اختیار کر سکتی ہے۔ پنجاب حکومت کا فضا میں اسپرے کرانے کا فیصلہ احسن اقدام ہے۔ شہری باہر نکلتے ہوئے ماسک کا استعمال کریں۔ دوسری جانب شہریوں کو اب اپنی ذمے داری کا احساس کرتے ہوئے حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ جس طرح اپنے گھروں کو صاف ستھرا رکھتے ہیں، اسی طرح گلی، محلوں، سڑکوں، عوامی مقامات و دیگر جگہوں کو بھی صاف رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں، گندگی پھیلانے سے گریز کریں، کچرا ڈسٹ بن میں ڈالیں۔ حکومت زیادہ سے زیادہ شجرکاری مہمات کی ریت کو مضبوط کرے، اس میں شہری بھرپور حصّہ لیں اور اپنے حصّے کی شمع جلاتے ہوئے درخت و پودے لگائیں اور اُن کی آبیاری کی ذمے داری احسن انداز میں نبھائیں۔ فضائی آلودگی کے عفریت پر ہر صورت قابو پایا جائے، دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں اور فیکٹریوں کے مالکان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔





