Editorial

بجلی کی قیمت میں پھر اضافہ

پچھلے پانچ، چھ سال سے غریب عوام کی زندگی کسی اذیت سے کم نہیں ہے۔ اُن کے لیے ہر نیا دن کٹھن امتحان کے ساتھ شروع اور اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اُن کے لیے زیست چنداں آسان نہیں ہے۔ پانچ سال کے عرصے میں مہنگائی تین، چار گنا بڑھ چکی ہے۔ اشیاء ضروریہ کے نرخوں میں بھی تین گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ آٹا، چینی، چائے کی پتی، تیل، گھی، چاول، دالیں، مسالہ جات، دودھ، دہی غرض سبھی کی قیمتیں مائونٹ ایورسٹ سر کرتی نظر آتی ہیں۔ بنیادی ضروریات (پٹرولیم مصنوعات، گیس، بجلی) کے نرخ آسمان پر پہنچے ہوئے ہیں اور ان میں مزید اضافے کے سلسلے دراز ہیں۔ ابھی پچھلے مہینے ہی پورے ملک میں بجلی کی قیمت میں من مانے اضافے کے خلاف شدید احتجاج دیکھنے میں آئے۔ احتجاج کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ ملک بھر کے تمام شہروں میں بجلی کے زائد اور ہوش رُبا بلوں کے خلاف شدید احتجاج کیے گئے۔ بجلی کے بل پھاڑے گئے۔ دھرنے دئیے گئے۔ تاجر برادری نے بھی شدید احتجاج ریکارڈ کرایا۔ غریب عوام نے خوب دُہائی دی، لیکن نتیجہ صفر نکلا اور اُن کو کوئی ریلیف نہ مل سکا۔ نگراں حکومت آئی ایم ایف سے ریلیف کے حوالے سے گفت و شنید کرتی رہی، لیکن کوئی گلوخلاصی نہ ہوسکی۔ عالمی ادارے نے صاف انکار کردیا۔ ابھی عوام اس برق سے سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ اُن پر پھر بجلی گرادی گئی۔ بجلی پھر مہنگی کردی گئی، جو پہلے ہی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں خاصی گراں ہے۔ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 28 پیسے فی یونٹ اضافہ کردیا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم مارچ 2024 تک ہوگا۔ قیمتوں میں اضافے کا اطلاق ملک بھر کے تمام صارفین پر ہوگا۔ بتایا گیا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین پر 146 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ دوسری طرف چیف سیکرٹری پنجاب نے بجلی بلوں کے نادہندگان کے خلاف آپریشن تیز کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے کہا کہ صوبہ بھر میں زیر التوا بجلی کے بلوں کی ادائیگی یقینی بنائی جائے۔ علاوہ ازیں لیسکو ریجن کے پانچوں اضلاع میں 25ویں روز بھی بجلی چوروں کے خلاف آپریشن جاری رہا، جس کے دوران 588افراد بجلی چوری کرتے پکڑے گئے، 258 ایف آئی آر رجسٹرڈ کرلی گئیں۔ ترجمان لیسکو کے مطابق پکڑے جانے والے کنکشنز میں کمرشل17، زرعی 1اور 570ڈومیسٹک تھے۔ تمام کنکشن منقطع کرکے ان کو 8 لاکھ77 ہزار 396 یونٹس ڈیٹکشن بل کی مد میں چارج کیے گئے جن کی مالیت 6کروڑ 67لاکھ 54ہزار 908روپے بنتی ہے۔ دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کی سابق رکن اسمبلی رخسانہ کوثر پرویز کے خلاف مبینہ بجلی چوری کے الزام پر مقدمہ درج کرلیا گیا، بتایا گیا ہے کہ لیگی رہنما ڈائریکٹ سپلائی سے کنڈا لگا کر بجلی چوری کر رہی تھیں۔ ادھر لیسکو نے بجلی چوری اور اوور بلنگ کی روک تھام کے لئے میگا پراجیکٹ پر کام شروع کر دیا ہے، کمپنی نے2ارب10کروڑ کی لاگت سے ہائی لائن لاسز والے علاقوں میں51ہزار جدید میٹر لگانے کی منظوری دے دی ہے۔ بجلی چوروں کے خلاف ملک بھر میں کارروائیاں احسن قدم ہیں، ان کے خلاف مزید سخت کارروائیاں وقت کی اہم ضرورت ہیں، کسی بجلی چور اور نادہندہ کو نہ بخشا جائے، ایک ایک پائی ریکور کی جائے۔ دوسری طرف بجلی قیمت میں اضافہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عوام پہلے ہی انتہائی گراں بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ چین، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش، ایران وغیرہ میں بجلی انتہائی سستی ہے اور وہاں کے عوام کو اس کے بلز کی ادائیگی اتنی گراں نہیں گزرتی، جتنی یہاں دیکھنے میں آتی ہے۔ وطن عزیز میں تو چھوٹے چھوٹے دو، دو کمروں کے گھروں میں لاکھوں روپے ماہانہ بجلی بل بھیجنے کی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ ملک میں مہنگی ترین بجلی کی بنیادی وجہ اس کی پیداوار کے سستے ذرائع کو مکمل طور پر بروئے کار نہ لانا ہے۔ یہاں بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع پر انحصار کیا جاتا ہے، جس کا بوجھ ملک بھر کے تمام صارفین پر پڑتا ہے۔ غریب طبقے سے متعلق افراد زیادہ متاثر دِکھائی دیتے ہیں، اکثر اوقات بجلی بل اُن کی آمدن سے تجاوز کر رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ بجلی کا بل بھریں یا اپنے بال بچوں کا پیٹ پالیں۔ دُنیا بھر میں بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع کو بروئے کار لایا جارہا ہے، مہنگے ذرائع وہ متروک کرچکے ہیں جب کہ ہمارے یہاں ابھی تک وہی پرانے طریقۂ کار کے ذریعے بجلی کی پیداوار حاصل کی جارہی ہے، جو ملک اور قوم پر بدترین بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع سے بتدریج جان چھڑانے کا بندوبست کیا جائے اور توانائی کے حصول کے سستے ذرائع ( ہوا، پانی، سورج) پر تمام تر توجہ مرکوز کی جائے۔ اس حوالے سے زیادہ سے زیادہ منصوبے لگائے جائیں اور اُنہیں جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ اس کے سوا اور کوئی چارہ بھی نہیں، وگرنہ عوام یوں ہی مہنگے بجلی بلوں کی دُہائی دیتے رہیں گے اور کبھی اُن کی اشک شوئی کا بندوبست نہیں ہوسکے گا۔ ضروری ہے کہ بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر تعمیر کیے جائیں، اس سے ناصرف آبی قلت کے دیرینہ مسئلے کے حل کی سبیل ہوسکے گی بلکہ وافر پن بجلی پیدا ہوسکے گی۔ شمسی توانائی کے حصول کے لیے بھی منصوبہ بندی کی جائے۔ ہوا سے بجلی کا حصول ممکن بنایا جائے۔ ماضی میں اس ضمن میں خاصی لیت و لعل سے کام لیا گیا، جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ سرکلر ڈیٹ بڑھتا چلا جاتا اور ملک اور قوم پر بدترین بوجھ بنتا ہے۔ سستے ذرائع سے بجلی کی پیداوار سے گردشی قرضوں کا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہوسکے گا۔ ضروری ہے کہ سستی بجلی کے حصول کے لیے شروع کردہ منصوبوں میں شفافیت کو اولیت دی جائے۔ درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

دہشت گردی کے خاتمے کیلئے حکومتی عزم
دہشت گردوں نے ملک و قوم کے خلاف پھر سے اپنی مذموم کارروائیاں شروع کی ہوئی ہیں۔ پچھلے کچھ مہینوں سے تسلسل کے ساتھ سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے، کئی جوان ان تخریبی کارروائیوں میں جام شہادت نوش کرچکے ہیں، خصوصاً کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں شدّت دیکھنے میں آرہی ہے۔ جشنِ عید میلاد النبیؐ کے موقع پر ہنگو میں نماز جمعہ کے دوران خودکُش حملہ ہوا، جس میں 5 افراد جاں بحق ہوئے جب کہ اسی روز مستونگ میں عید میلاد النبی کے جلوس پر خودکُش حملہ کیا گیا، جس میں اب تک 60 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ دہشت گردی کی ان کارروائیوں پر پوری قوم غم و اندوہ کی کیفیت میں ہے۔ ہر آنکھ نم ہے۔ ان کارروائیوں میں ملوث عناصر کو نشانِ عبرت بنانے کی ضرورت ہے۔ پوری قوم میں دہشت گردوں کے لیے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف پوری قوم متحد ہے۔ سیکیورٹی فورسز مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا جا چکا ہے، گرفتاریاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔ کافی علاقوں کو دہشت گردوں سے کلیئر کرادیا گیا ہے۔ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک یہ کارروائیاں جاری رہیں گی، امید ہے کہ جلد پاکستان دہشت گردی کے عفریت کو قابو کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ گزشتہ روز بھی میانوالی میں دہشت گردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنایا گیا۔ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے انتہائی بہادری سے امن دشمنوں کے مذموم حملے کو پسپا کیا۔دہشت گردی کے خلاف حکومت، سیکیورٹی ادارے اور قوم ایک صفحے پر ہیں۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بھی دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا عزم ظاہر کرچکے ہیں۔ اب نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی کہا ہے کہ حکومت ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے اور اس لعنت کا خاتمہ کریں گے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں مستونگ اور ہنگو میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی، جاں بحق افراد کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی، زخمیوں کے لیے صحت یابی کی بھی دعا کرائی گئی، دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر وزیر داخلہ کی جانب سے بریفنگ دی گئی۔ کابینہ نے ترکیہ کی پارلیمنٹ سے متصل پولیس ہیڈ کوارٹرز پر دہشت گرد حملے کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو مزید متحرک ہونا ہوگا۔ سیکیورٹی فورسز ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور وہ اپنے مشن پر پوری تندہی سے گامزن ہیں۔ جلد ان شاء اللہ ملک کو دہشت گردی کی لعنت سے چھٹکارا نصیب ہوگا اور امن و امان کی فضا پھر سے بحال ہوگی۔ واضح رہے پہلے بھی پاکستان تن تنہا دہشت گردی کا مقابلہ کرتے ہوئے شرپسندوں کو ناکوں چنے چبوا چکا ہے۔

جواب دیں

Back to top button