پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی نوید

ملک عزیز کے عوام اس وقت قومی تاریخ میں سب سے مہنگی پٹرولیم مصنوعات استعمال کررہے ہیں۔ بجلی کی قیمت بھی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔ اشیاء ضروریہ کے نرخ بھی مائونٹ ایورسٹ سر کرتے دِکھائی دیتے ہیں۔ پچھلے پانچ، ساڑھے پانچ سال ملک اور غریب عوام کے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھے۔ مہنگائی کے نشتر اُن پر بُری طرح برستے رہے۔ گرانی کی شرح میں تین گنا اضافہ ہوا۔ آٹا، چینی، دال، چاول، پتی، تیل، گھی، دودھ، دہی، مسالہ جات اور دیگر کے نرخ بے پناہ بڑھے۔ غریب عوام کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا ازحد دُشوار ترین امر بن کر رہ گیا۔ آمدن وہی رہی، اخراجات بے پناہ بڑھ گیا۔ معیشت کو تاریخ کی بدترین زک پہنچی۔ اس کا پہیہ تھم سا گیا۔ بہت سے اداروں کو اپنے آپریشنز بند کرکے اپنے کاروبار کو سمیٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔ بے روزگاری کا بدترین طوفان آیا۔ لاکھوں لوگوں کو بے روزگاری کا زخم سہنا پڑا۔ ایک زمانے میں ایشیا کی سب سے بہترین کرنسی کہلانے والا روپیہ تاریخ کی بدترین گراوٹ کا شکار ہوکر ایشیا کی بدترین کرنسیوں میں سرفہرست آگیا۔ ہوش رُبا گرانی کی وجہ پاکستانی روپے کی بدترین بے توقیری تھی۔ ڈالر اُسے بُری طرح چاروں شانے چت کرتا نظر آیا۔ 100روپے سے ڈالر 330روپے کی حد عبور کر گیا۔ ڈالر کے نرخ جیسے جیسے بڑھتے رہے، ویسے ویسے پٹرولیم مصنوعات سمیت تمام ہی اشیاء کے داموں میں بھی اضافہ ہوتا رہا۔ ورلڈ بینک نے بھی اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ہولناک انکشاف کیا ہے کہ ملک میں غریبوں کی تعداد میں سوا کروڑ اضافہ ہوگیا ہے اور وہ ساڑھے 9کروڑ ہوچکے ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ چشم کشا حقیقت تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے۔ پچھلے دنوں سے ملک کے طول و عرض میں ڈالر، سونا، چینی، گندم، کھاد اور دیگر اشیاء کے اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈائون جاری ہے۔ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کو وسیع پیمانے پر پکڑا جارہا اور ان سے ناصرف وافر بیرونی کرنسی برآمد ہورہی ہے بلکہ اشیاء ضروریہ کی بھاری بھر کم کھیپ بھی مل رہی ہے، جن کی مالیت اربوں روپے بتائی جارہی ہے۔ ان تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والی کارروائیوں کے ثمرات ڈالر اور سونے کی قیمت میں کمی کی صورت ظاہر ہوئے ہیں۔ اشیاء ضروریہ کے نرخوں میں بھی کچھ کمی کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ ڈالر کی قدر گھٹنے پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے امکان ظاہر کیے جارہے تھے۔ اس حوالے سے مسلسل خبریں میڈیا کی زینت بن رہی تھیں۔ اب اس ضمن میں نگراں وفاقی وزیر نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا مژدہ سُنایا ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق نگراں وزیر صنعت گوہر اعجاز نے خوشخبری سناتے ہوئے کہا ہے کہ یکم اکتوبر سے پٹرول کی قیمت میں کمی آجائے گی۔ کراچی میں کاروباری برادری سے ملاقات کے بعد گورنر سندھ کامران
ٹیسوری کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے گوہر اعجاز نے بتایا کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے پٹرول سمیت تمام اشیا کی مہنگائی ہوئی ہے۔ گوہر اعجاز نے کہا کہ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر کم ہوئی ہے، اقدامات کی وجہ سے کرنسی اپنی جگہ پر آگئی ہے، غیر قانونی طور پر باہر ڈالر بھیجنے والوں کو روکنے سے بہتری آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ذمے داری ہے صنعت اور تجارت کا خیال رکھیں، ڈالر کی قدر کم ہونے سے عوام کو ریلیف ملے گا، ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے مہنگائی بڑھی، یہ نہیں ہوسکتا کہ 17ڈالر کی گیس خرید کر 4 ڈالر میں دیں۔ وزیر صنعت نے کہا کہ اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے بڑی سرمایہ کاری آرہی ہے۔ اس سے قبل گورنر سندھ نے نگراں وزیر کامرس اینڈ انڈسٹریز و ٹیکسٹائل گوہر اعجاز کے ہمراہ صنعت کاروں کے وفد سے گورنر ہائوس میں ملاقات کی۔ جاری اعلامیے کے مطابق ملاقات میں صنعتوں کو بجلی، گیس اور پانی کی مسلسل فراہمی، بجلی کے نرخوں میں کمی کے اقدامات، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے برآمدی صنعتوں کے فروغ اور دیگر متعلقہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ گورنر نے کہا کہ اسٹیک ہولڈرز سے ملاقات کے لیے کراچی آنے پر ڈاکٹر گوہر اعجاز کا شکر گزار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ نگراں وفاقی حکومت، کاروباری برادری کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہے، صنعتوں کو گیس، بجلی اور پانی کی مسلسل فراہمی کے لیے متعلقہ وزارتوں سے رابطہ میں ہوں۔ نگراں وفاقی وزیر نے کہا کہ کراچی کے مختلف کاروبار کا ملکی معیشت میں اہم کردار ہے، ان کے مسائل کے حل کے لیے نگراں وزیراعظم نے متعلقہ وزارتوں کو ہدایت دی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گورنر سندھ کی دعوت پر آپ کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے کراچی آیا ہوں، جن مسائل کی نشان دہی کی گئی ہے وہ نگراں وزیراعظم کے علم میں لائوں گا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی نوید یقیناً موجودہ حالات میں تازہ ہوا کے خوش گوار جھونکے کی مانند ہے۔ اس کی ضرورت بھی خاصی شدّت سے محسوس کی جارہی تھی۔ پے درپے مہنگائی کے نشتر برسنے سے غریب عوام بے حد پریشان ہیں۔ اُن کے لیے زیست کسی کٹھن امتحان سے کم نہیں۔ وہ روز بروز بڑھتی مہنگائی سے بُری طرح عاجز ہیں۔ وہ ریلیف کے متقاضی ہیں۔ اُنہیں پچھلے پانچ برسوں میں ذرّہ برابر ریلیف میسر نہیں آسکا ہے، بلکہ اُن کے لیے ہر گزرتا دن کسی کٹھن آزمائش سے کم نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف کریک ڈائون اُن کے قلع قمع تک جاری رہنا چاہیے۔ اس کے مثبت اثرات ملکی کرنسی کے استحکام کا باعث ہونے کے ساتھ اشیاء ضروریہ کے داموں میں واضح کمی کا باعث بھی ثابت ہوں گے۔ اسمگلروں اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف آپریشن ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے۔ سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈالر کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات کی عوام تک منتقلی کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ غریب عوام بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ ان کی اشک شوئی کرنا ازحد ناگزیر ہے۔
ٹریفک حادثات، تدارک ناگزیر!
ہمارے ملک میں ہر سال ہزاروں افراد ٹریفک حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اتنے لوگ تو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہلاک نہیں ہوتے، جتنی زندگیوں کے چراغ سڑکوں پر ہونے والے آئے روز کے حادثات میں گل ہوجاتے ہیں۔ گویا وطن عزیز میں ٹریفک حادثات میں شرح اموات خاصی بلند ہے۔ یہ امر تشویش ناک ہونے کے ساتھ جتنا ممکن ہوسکے اُتنا ٹریفک حادثات پر قابو پانے کا متقاضی بھی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک کے طول و عرض میں کوئی ٹریفک حادثہ رونما نہ ہوتا ہو۔ ارباب حل و عقد اس حوالے سے بہتر منصوبہ بندی کرنے کے بجائے محض کبھی کبھار کسی بڑے ٹریفک حادثے پر افسوس کا اظہار کرکے اپنے تئیں اپنی ذمے داری پوری کرلیتے ہیں اور اگلے سانحے کے منتظر ہوتے ہیں۔ اس طرح تو کسی طور اس حوالے سے صورت حال بہتر نہیں بنائی جاسکتی۔ دیکھا جائے تو وطن عزیز میں ٹریفک حادثات کی کئی ایک وجوہ ہیں۔ ان میں خستہ حال اور سفر کے لیے غیر محفوظ سڑکیں، گاڑیوں کی تیز رفتاری، غیر معیاری سلنڈرز، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنا، ڈرائیوروں کا نشے میں دھت ہونا اور دیگر شامل ہیں۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ حادثات کے شکار مسافر تڑپتے رہتے ہیں اور اُنہیں خاصی دیر سے طبی امداد میسر آپاتی ہے، یوں ایسی زندگیاں بھی گل ہوجاتی ہیں، جنہیں بچایا جاسکتا ہے،اس کی وجہ ہسپتالوں کا دُور ہونا ہے۔ مانا ٹریفک حادثات کو روکا نہیں جاسکتا، یہ دُنیا بھر میں ہوتے ہیں اور ان میں ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں، لیکن ان کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی شرح کو تو مناسب حکمت عملی کے ذریعے کم کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے حکمرانوں کی جانب سے افسوس کے بے شمار اظہاریے کیے جاچکے ہیں۔ اب ضروری ہوگیا ہے کہ اس سے آگے بڑھا جائے، مناسب حکمت عملی ترتیب دی جائے اور راست اقدامات بروئے کار لائے جائیں۔ ملک بھر میں خستہ حال سڑکوں کی تعمیر و مرمت کو یقینی بنایا جائے۔ غیر محفوظ راستوں کو سفر کے لیے سہل بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ تمام بین الشہر شاہراہوں پر مناسب طبی سہولتوں کے حامل ہسپتال معقول تعداد میں تعمیر کیے جائیں، جہاں کسی حادثے سے دوچار زخمیوں کو فوری طبی امداد میسر آسکے۔ ڈرائیوروں کی تربیت کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ نشئی ڈرائیوروں سے جان چھڑائی جائے۔ ٹریفک قوانین کی پاسداری ممکن بنائی جائے۔ غیر معیاری سلنڈروں کی حامل گاڑیوں کے مالکان کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ اگر اس حوالے سے درست سمت میں قدم اُٹھالیے گئے تو یقیناً ٹریفک حادثات میں بلند شرح اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔





