
اقتدار کی خواہش ایسی منہ زور خواہش ہوتی ہے جو قوی سے قوی ایمان اور مضبوط سے مضبوط قلعوں کی بنیادیں ہلا دیتی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی بغاوتیں جنم لیتی ہیں بد قسمتی سے ان کے پیچھے یہی باطل خواہش ہوتی ہے۔ اسی قسم کی ایک بغاوت نما سازش کی ناکام کوشش پاکستان آرمی کی اعلی’ قیادت کے خلاف بھی کی گئی تھی۔ اور یہ سازش بھی فوج کے میجر جنرل اور برگریڈئیرز کی جانب سے کی گئی۔ یہ سارا منصوبہ میجر جنرل ظہیر السلام کو امیرالمومنین بنا کر ملک میں ’خلافت‘ قائم کرنے کا تھا۔
آرمی چیف جنرل عبد الوحید کاکڑ نے 30 ستمبر 1995 کو جی ایچ کیو راولپنڈی میں معمول کا کور کمانڈرز اجلاس طلب کر رکھا تھا اور منصوبہ یہ تھا کہ آرمی چیف جنرل عبدالوحید کاکڑ اور کور کمانڈرز کانفرنس کے لیے آئے جرنیلوں کو ان کی رہائش کے لیے دیے گئے کمروں سے گرفتار کیا جائے گا۔
جس کے بعد راتوں رات میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو نیا آرمی چیف تعینات کر کے صدر مملکت فاروق احمد خان لغاری اور وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو گرفتار کر کے حکومت کا تختہ الٹنا اور پھر جنرل ظہیر الاسلام کا قوم سے خطاب کروانا تھا۔
اس مجوزہ خطاب کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا جا چکا ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ اس مقصد کے لیے فوجی جوانوں کے بجائے کشمیر اور افغانستان میں جہاد لڑنے والے مجاہدین کو استعمال کیا جانا تھا جس کی ساری ذمہ داری قاری سیف اللہ اختر کو سونپی گئی تھی۔
لیکن اس منصوبے کی ناکامی اس طرح ہوئی کہ ایبٹ آباد میں منصوبے میں ملوث دو برگیڈئیرز کی جانب سے فراہم کیا جانے والا اسلحہ٬ اور جہادی کمانڈر قاری سیف اللہ ایکسائز کی ریڈ میں پکڑے گئے۔ یہ دونوں افسران واپس راولپنڈی پہنچے جن کے پہنچنے پر سب سے پہلے میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو اس معاملے سے آگاہ کیا گیا کیونکہ یہ سارا منصوبہ انھیں امیرالمومنین بنا کر ملک میں ’خلافت‘ قائم کرنے کا تھا۔
30 ستمبر کے منصوبے کے لیے لائے جانے والے اسلحے اور قاری سیف اللہ اختر کی گرفتاری کے بعد سارا معاملہ چوپٹ ہوتا نظر آ رہا تھا۔ مستنصر باللہ اور کرنل لیاقت علی راجہ ایک بار پھر راولپنڈی کی ایک مسجد میں میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی سے ملے۔
کرنل لیاقت علی راجہ کے عدالت میں دیے گئے بیان کے مطابق ’اس ملاقات میں جنرل عباسی نے کہا کہ 30 ستمبر ابھی بہت دور ہے ہمیں اپنا مقصد پورا کرنے کے لیے کور کمانڈرز کانفرنس سے پہلے ہی کسی دوسرے منصوبے کی منصوبہ بندی کر لینی چاہیے۔ میں نے انھیں بتایا کہ اگر ہم کور کمانڈرز کو گالف گراؤنڈ میں بے بس کر دیتے ہیں تب آپ کے خیال میں کیسا رہے گا۔ اس پر جنرل عباسی نے میری کمر تھپتھپاتے ہوئے کہا کہ نوجوان تم بہت بہادر ہو۔‘
مختلف منصوبوں پر باتیں کرتے سارے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ 8 ستمبر کی وہ رات شاید بغاوت کا منصوبہ بنانے والے تمام کرداروں پر بھاری گزری ہو گی۔ سب کو فکر تھی کہ قاری سیف اللہ اختر کہیں سارے معاملے کا بھانڈا نہ پھوڑ دیں۔
ادھر قاری سیف اللہ اختر جو پہلے ہی ایک تجربہ کار شخص تھے اور ایسی صورتحال سے نمٹنے کے طریقوں سے آگاہ تھے، نے گرفتاری کے بعد فوجی حکام سے پوچھ گچھ کے دوران اپنی زبان بند رکھی اور یہی ظاہر کیا کہ وہ یہ اسلحہ کشمیری مجاہدین کی مدد کے لیے خرید رہے تھے۔
اس دوران اسلحے سمیت برآمد ہونے والی کار کے مالک کرنل لیاقت علی راجہ اور بریگیڈئیر مستنصر باللہ سے پوچھ گچھ بھی ہوئی مگر کسی کو اصل منصوبے کی بھنک تک نہ پڑی۔
بتایا جاتا ہے کہ بریگیڈئیر مستنصرباللہ نے اپنے کچھ کاغذات مفتی سعید نامی شخص کو دیے اور ہدایت کی کہ انھیں جلا کر ضائع کر دیا جائے۔ بعدازاں فوجی حکام نے مفتی سعید سے اس تقریر کی نقل بھی برآمد کی تھی جو ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے کرنا تھی۔ مفتی سعید ان فوجی افسران کے ساتھ وہ واحد شخص تھے جو ہر معاملے سے آگاہ تھے۔بریگیڈئیر مستنصر باللہ نے غیر قانونی قرار دے کر ضبط ہو چکی اپنی کتاب میں دعویٰ کر رکھا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو 17 ستمبر 1995 کو خفیہ اطلاع دی تھی کہ کوہاٹ سے برآمد ہونے والا اسلحہ دراصل کشمیر کے لیے نہیں بلکہ فوج کے اندر بغاوت کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔
مستنصر باللہ کے مطابق انھیں اور ان کے ساتھی کرنل لیاقت علی راجہ کو اسی اطلاع کے فوری بعد گرفتار کر لیا گیا تھا۔
مستنصر باللہ کے مطابق 25 اور 26 ستمبر 1995 کو کرنل لیاقت علی راجہ ہمت ہار گئے اور انھوں نے حکام کو ’آپریشن خلافت‘ کا مکمل منصوبہ اور تمام افراد کے نام بتا دیے۔ یوں فوجی حکام نے 100 فوجی افسران کو پکڑ کر ان سے تفتیش شروع کر دی۔
28 اور 29 ستمبر کو اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے بریگیڈئیر خورشید کے سامنے بریگیڈئیر مستنصر باللہ کو پیش کیا گیا اور ان سے مخاطب ہو کر بتایا گیا ’آپریشن خلافت ختم ہو گیا۔‘
بشکریہ اعزاز سید







