Editorial

بجلی نرخ بڑھائے نہیں کم کئے جائیں

ملک بھر میں پچھلے ایک ہفتے سے زائد وقت سے بجلی کی قیمت میں ہوش رُبا اضافے اور مہنگائی کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ وطن عزیز کے طول و عرض میں احتجاج میں شدّت محسوس کی جارہی ہے۔ نگراں حکومت بھی عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے، لیکن معیشت کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے اور اس صورت حال میں ایسا بڑا قدم اُٹھانا چنداں آسان نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط آڑے آرہی ہیں، جو بجلی بلوں کی مد میں عوام الناس کو ریلیف دینے میں رخنہ بن رہی ہیں۔ تاہم اس حوالے سے اطلاعات ہیں کہ بھرپور عوامی احتجاج پر حکومت نے ریلیف پلان تیار کرلیا ہے۔ نگراں حکومت نے بجلی بلوں پر ریلیف دینے کا پلان بنالیا، 3 سو یونٹ استعمال کرنے والوں کو 3ہزار روپے کا ریلیف دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق تین سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے اکتوبر میں آنے والے بلوں میں تین ہزار روپے کمی ہوگی، 60سے 70ہزار روپے بل والوں کو 13ہزار روپے کا ریلیف ملے گا، نگراں حکومت نے ریلیف پلان آئی ایم ایف کے ساتھ شیئر کر دیا۔ ذرائع کے مطابق حکومت کو آئی ایم ایف کی جانب سے گرین سگنل کا انتظار ہے۔ حکومتی ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ نگراں حکومت کی جانب سے عوامی ریلیف کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ رب کریم عوام الناس پر رحم فرمائے اور یہ پلان عالمی ادارے کی جانب سے منظور کرلیا جائے۔ اس صورت میں غریبوں کی کچھ تو اشک شوئی ہوسکے گی۔ حکومت کو اس سے بڑھ کر بھی اقدامات کرنے اور کوششیں کرنی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ عوام مہنگائی کے ہاتھوں بُری طرح پریشان ہیں۔ پچھلے 5، 6سال میں اُن کی حالت اس باعث پتلی ہوچکی ہے۔ اتنی شدید گرانی تو قیام پاکستان کے ابتدائی 70برسوں میں ایک بار بھی دیکھنے میں نہیں آئی، جتنی اب ہے۔ ضروری ہے کہ سستی بجلی کی فراہمی کے لیے توانائی کے سستے ذرائع ( ہوا، پانی، سورج) کو بروئے کار لایا جائے۔ اس حوالے سے منصوبے بنائے جائیں اور جلد از جلد ان کو پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ کیونکہ اس حوالے سے اب مزید تاخیر کی چنداں گنجائش نہیں ہے۔ دوسری جانب آن لائن کے مطابق وفاقی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے رواں ماہ کے دوران بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 4روپے 96پیسے فی یونٹ اضافے پر غور کر رہی ہے، جس کا بوجھ صارفین پر پڑے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وفاقی حکومت آئی ایم ایف سے سبسڈی کی رعایت ملنے پر بنیادی ٹیرف اور صارفین پر بجلی کا اضافی بوجھ ڈالنے کیلئے فیصلہ کرے گی۔ نیپرا نے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی درخواست پر جو فیصلہ کیا ہے، اس پر عمل درآمد کی صورت میں گھریلو صارفین پر سلیب وائز بوجھ پڑے گا۔ ماہانہ سو یونٹ کا ٹیرف 13.4سے بڑھ کر 18.36روپے یونٹ بغیر ٹیکسوں اور سرچارجز کے ہوجائے گا۔ سو یونٹ استعمال کرنے والے صارف کا بل 1836روپے آئے گا۔ ماہانہ 200یونٹ کا ٹیرف 23روپے 91پیسے فی یونٹ ہوگا اور بل 3700سے بڑھ کر 4700روپے ماہانہ ہوجائے گا۔ 300 یونٹ ماہانہ استعمال کرنے والوں کا بجلی کا بل 6ہزار سے بڑھ کر 8ہزار تک پہنچ جائے گا۔ 4سو یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کا بل 10ہزار سے بڑھ کر 12ہزار تین سو روپے ہو جائیگا۔500یونٹ کے استعمال پر بجلی کا بل 13ہزار سے بڑھ کر 16ہزار تک جا پہنچے گا۔ ماہانہ 700یونٹ استعمال کرنے پر بل گزشتہ مہینے تک 24ہزار روپے آیا تھا وہ بڑھ کر 28ہزار روپے ہوجائے گا۔ ان بلوں میں نصف درجن کے لگ بھگ ٹیکسز، سرچارجز، کپیسٹی پیمنٹ اور ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ الگ سے شامل ہوں گے۔ دوسری جانب نجی ٹی وی کے مطابق ڈالر کی طرح بجلی کے ریٹ بھی بے لگام ہوگیا اور گھریلو صارف کے لئے بجلی کے ایک یونٹ کی انتہائی قیمت 5روپے 80پیسے تک پہنچ گئی۔ بجلی مہنگی ہی نہیں، مہنگی ترین ہو چکی اور یہ سلسلہ رکتا دکھائی نہیں دے رہا۔ لوگ پریشان ہیں کہ بجلی کے بل دیں یا کھانا پینا اور دیگر ضروریات زندگی پوری کریں۔ اس وقت بجلی کے ایک یونٹ کی اوسط قیمت 42روپے ہے۔ گھریلو صارف کوایک یونٹ زیادہ سے زیادہ 57روپے 80پیسے اور کمرشل صارف کو63روپی 98پیسے میں بھی پڑتا ہے۔ بجلی مہنگی ہونے کی ایک بڑی وجہ آئی پی پیز کے ساتھ کئے گئے معاہدے بھی ہیں، 30جون 2023تک ایک سال میں آئی پی پیز کو کیپیسٹی پے منٹس 1300ارب روپے رہیں۔ ایسی بجلی کی رقم جو صارف نے استعمال ہی نہیں کی مگر اس کا بالآخر بوجھ بھی صارف پر پڑا۔ رواں مالی سال جون 2024ء تک کیپیسٹی پیمنٹس 2ہزار ارب روپے سے تجاوز کرنے کا تخمینہ ہے۔ بجلی چوری اور لائن لاسز بھی ایک بڑا مسئلہ ہے یعنی کرے کوئی اور بھرے کوئی۔ عالمی ادارے کی شرائط پر پھر بجلی نرخ میں اضافہ کرنے کی اطلاعات یقیناً پریشان کُن ہیں۔ قوم بے پناہ مصائب اور مشکلات سے گزر رہی ہے۔ غریبوں کے لیے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنا اس وقت مشکل ہوچکا ہے۔ ایسے میں بجلی کی مزید مہنگی ہونے کی خبریں سوہانِ روح سے کم نہیں۔ اگر بجلی نرخ بڑھادیے گئے تو احتجاج کے حوالے سے صورت حال سنگین شکل اختیار کر لینے کا اندیشہ ہے، جو کسی طور ملک و قوم کے مفاد میں بہتر نہیں ہوگا۔ لہٰذا بجلی کے نرخ مزید نہ بڑھائے جائیں بلکہ ان میں کمی لانے کا بندوبست کیا جائے۔ حکومت کو اس معاملے میں عالمی ادارے کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے۔ بجلی کے مزید نرخ میں اضافے کی یہ قوم متحمل نہیں ہوسکتی۔ وہ پہلے ہی خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہت مہنگی بجلی استعمال کر رہی ہے۔
چینی کی قیمت میں ہوش رُبا اضافہ
عوام کے لیے زندگی عذاب مسلسل بنی ہوئی ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد انہیں کسی نہ کسی شے کے مصنوعی بحران کے نام پر بڑی بے دردی سے لوٹا جاتا ہے۔ پہلے آٹے کے نرخ 40روپے فی کلو سے 150روپے تک پہنچا دئیے گئے۔ مختلف مواقع پر اس کے مصنوعی بحران پیدا کیے گئے اور اب یہ 150روپے سے کم میں کہیں دستیاب نہیں۔ مافیا کامیاب رہا، حکومتی عمل داری نہ ہونے کے باعث عوام لُٹنے پر مجبور رہے۔ ملز مالکان اور دیگر نے گٹھ جوڑ کرکے اپنی تجوریاں دھانوں تک بھر لیں اور اب بھی آٹے کے نرخ بڑھانے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ پچھلے ایک ڈیڑھ مہینے سے چینی مافیا بے قابو ہے اور اس نے چینی کی فی کلو قیمت 115روپے سے 200روپے تک پہنچا ڈالی ہے۔ اس حوالے سے ’’ جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ملک میں چینی کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور مختلف شہروں میں فی کلو 200روپے میں فروخت ہورہی ہے۔ بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں جب کہ چینی نے بھی اپنی ڈبل سنچری مکمل کرلی ہے۔ دُکان داروں نے کہا ہے کہ ٹرانسپورٹ کے کرایوں سمیت دیگر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جب کہ شہریوں کا کہنا ہے کہ غریب مررہا ہے، کسی کو ان کی فکر نہیں۔ مہنگائی کا جن بدستور بے قابو ہے اور اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں روز بروز پَر لگ رہے ہیں جب کہ چینی کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ متوسط طبقہ اور کم آمدن والے افراد کی قوتِ خرید ختم ہوگئی ہے۔ کراچی میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے اور ہول سیل مارکیٹ میں چینی کی قیمت 178روپے کلو جب کہ ریٹیل مارکیٹ میں 185روپے کلو تک پہنچ گئی ہے۔ عوام نے نگراں حکومت سے ریلیف کا مطالبہ کیا ہے۔چینی مافیا کا اس طرح بے دردی سے عوام کے ساتھ لوٹ مار کرنا کسی طور مناسب امر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ حکومت آخر اس صورت حال کا تدارک کیوں نہیں کر رہی۔ ملک بھر میں ذخیرہ اندوز اور منافع خور غریبوں کی جیبوں پر نقب لگانے میں مکمل آزاد ہیں، کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں۔ آخر ایسا کب تک چلے گا؟ آخر کب عوام کی دادرسی کی جائے گی۔ یہ سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ بعض حصّوں میں تو چینی کے نرخ 220روپے فی کلو تک وصول کیے جانے کی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ یہ امر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ ہے۔ بہت ہوچکا، اب حکومت کو عوام کے وسیع تر مفاد میں راست کوششیں کرنی چاہئیں۔ مہنگائی کو قابو کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ حکومت اور متعلقہ ادارے ملک بھر میں چینی کے ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز کریں۔ ان کارروائیوں کو اُس وقت تک جاری رکھا جائے، جب تک اس ناپسندیدہ مشق پر قابو نہیں پالیا جاتا۔ سرکاری نرخ سے زائد پر تمام اشیاء کی فروخت کا سخت نوٹس لیا جائے اور اس صورت حال کا تدارک کیا جائے۔ حکومت کے مقرر کردہ نرخوں پر اشیاء ضروریہ کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ حکومتی عمل داری ہر صورت میں ممکن بنائی جائے۔ ذخیرہ اندوزوں، گراں فروشوں اور منافع خوروں کو کسی طور بخشا نہ جائے۔ ان پر ناصرف بھاری جرمانے عائد کیے جائیں بلکہ نشانِ عبرت بنایا جائے کہ آئندہ کوئی ایسا مذموم عمل کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔

جواب دیں

Back to top button