قدرت موت سے قبل انسان کو کیسے آگاہ کرتی ہے؟ پر اسرار واقعات

ملک کے معروف صحافی جاوید چوہدری نے اپنے تازہ ترین کالم میں ایک ایسے موضوع کو چھیڑا ہے کہ جس کا شاید سائنسی ثبوت تو موجود نہیں لیکن یہ اکثر اوقات ہمارے تجربے میں آیا ہے۔ اور وہ ہے موت سے پہلے انسان کو موت کے بارے میں معلوم ہوجانا۔ یا خطرے سے بچنے کے لیئے قدرت کا سنگنل دینا۔ اسکی وضاحت وہ واقعات سنا کر کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ مجھے اس نوعیت کے دو واقعات یاد آ گئے‘میرے پاس چندماہ قبل ایک صاحب آئے تھے‘ انھوں نے بتایا ’’میں چند سال پہلے اپنے دوستوں کے ساتھ گاڑی پر جا رہا تھا‘ مجھے راستے میں کسی نے کان میں کہا تم اس گاڑی سے فوراً اتر جائو اس کاایکسیڈنٹ ہونے والاہے‘ میں نے حیرت سے دائیں بائیں دیکھا‘ میرے دوست اونگھ رہے تھے‘ان میں سے کسی نے یہ فقرہ نہیں بولا تھا‘ میں نے اسے اپنا وہم سمجھا لیکن پھر نہ جانے کیوں میںنے ڈرائیونگ کرنے والے دوست سے کہا‘ تم مجھے فوراً نیچے اتار دو‘ اس نے حیرت سے پوچھاکیا ہوا‘ خیریت ہے؟
میں نے اس سے کہا‘ میری طبیعت خراب ہو رہی ہے‘ میں قے کر دوں گا اور اس سے تمہاری گاڑی گندی ہو جائے گی‘ میرے دوست نے نئی گاڑی خریدی تھی چناں چہ اس نے فوراً بریک لگا دی‘ میں گاڑی سے اترا اورسڑک کے کنارے چائے خانے میں بیٹھ گیا‘دوست کو جلدی تھی‘ اس نے مجھ سے کہا تم یہاں آرام کرو‘ ہم آدھے گھنٹے میں واپس آجاتے ہیں‘ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اور چائے خانے کی چارپائی پر لیٹ گیا‘ میرے دوست گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے‘ اگلے موڑ پر ان کاٹرک کے ساتھ ایکسیڈنٹ ہو گیا ‘ میں آج تک حیران ہوں میرے کانوں میں وہ آواز کہاں سے آئی تھی اور میں اگر اس پر توجہ نہ دیتا تو پھر میرا کیابنتا؟
دوسرا واقعہ میرے بزرگ دوست سیف الدین ہسام کا تھا‘ سیف صاحب برٹش کونسل لاہور میں کام کرتے تھے‘ پامسٹ بھی تھے اور انھوں نے ودرنگ ہائیٹس اور جین ائیر جیسے کلاسیک ناولوں کے ترجمے بھی کیے تھے‘ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد جہلم کے مشین محلہ میں رہتے تھے‘ میں ان سے ملاقات کے لیے جہلم جاتا تھا اوران کے مطالعے اور مشاہدے کا جی بھر کرفائدہ اٹھاتا تھا‘ ان کے دل میں اچانک ٹیس اٹھی اور وہ اسلام آباد آگئے‘ میں انھیں ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔
ڈاکٹر نے معائنے کے بعد اینجیو گرافی کا مشورہ دے دیا‘ ان کا عام سا پروسیجر تھا‘ خطرے کی کوئی بات نہیں تھی‘ وہ اینجیو گرافی سے ایک دن قبل میرے گھر تشریف لائے‘ میں ان دنوں راول ٹائون کے ڈیڑھ مرلے کے گھر میں رہتا تھا‘لوگ ان گھروں کو کھرلی ہائوس کہتے تھے‘ راول ٹائون بنیادی طور پر گوالا کالونی تھی‘ سی ڈی اے نے گوالوں کو گھروں کے ساتھ ساتھ بھینسیں باندھنے کے لیے چھوٹے پلاٹس دیے تھے‘ لوگوں نے ان پلاٹس میں دو دو منزلہ مکان بنا کر کرائے پر دے رکھے تھے‘یہ کھرلی ہائوس ہوتے تھے۔
میں اسی قسم کے ایک کھرلی ہائوس میں دو ہزار روپے کرائے پر رہتا تھا‘ ہسام صاحب تشریف لائے‘مجھ سے چائے کی فرمائش کی اور اس کے بعد مجھ سے کہنے لگے‘ جاوید بیٹا میں تم سے آخری بار ملنے آیا ہوں‘ میں کل نہیں بچوں گا‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا‘ سر دنیا میں روزانہ تیس لاکھ اینجیو گرافی ہوتی ہیں‘ یہ آپریشن نہیں ہے معمولی سا پروسیجر ہے‘ آپ اسے اتنا سیریس کیوں لے رہے ہیں؟ وہ مسکرائے اور میری طرف دیکھ کر بولے‘میرا بھی یہی خیال تھا مگر میں آج صبح لیٹا ہوا تھا تو میرے کان میں آواز آئی ’’سیف کیا تم اپنی زندگی کا آخری دن بھی لیٹ کر گزار دو گے؟‘‘
یہ میرے لیے اشارہ تھا لہٰذا میں تمہارے پاس آگیا اور میں یہاں سے اب اپنے بیٹے کے گھر جائوں گا‘ بیٹے اور بہو سے ملوں گا اور پھر اپنی کتاب کا آخری چیپٹر لکھوںگا‘ میں نے انھیں تسلی دینے کی کوشش کی مگر وہ میری باتوں کو اگنور کر کے مجھے زندگی کے مختلف لیسن دیتے رہے‘ ان کا کہنا تھا زندگی صرف وہ ہے جو ہم گزار رہے ہیں‘ نہ پیچھے کچھ ہے اور نہ آگے چناں چہ زندگی کے ہر دن کو آخری دن سمجھ کر گزارو تاکہ کوئی تاسف‘ کوئی حسرت نہ رہ جائے‘ وہ اس کے بعد اٹھے‘ سیٹلائیٹ ٹائون میں اپنے بیٹے کے گھر گئے۔
اگلے دن اسپتال پہنچے اور اینجیو گرافی کے دوران واقعی انتقال کر گئے‘ میں آج 30 سال بعد جب بھی انھیں یاد کرتا ہوں تو اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں کیا واقعی موت نے انھیں ایک دن پہلے بتا دیا تھا کل تمہارا آخری دن ہو گا‘ مجھے اس سوال کا جواب تیس سال بعد آرچرڈ روڈ پر واک کرتے ہوئے ملا‘ قدرت واقعی موت اور زندگی دونوں سے پہلے انسان کو اطلاع دیتی ہے اور یہ ہم پر منحصر ہوتا ہے ہم اس پیغام کو وہم سمجھتے ہیں یا حقیقت! قدرت بہرحال اپنا فرض ادا کر دیتی ہے۔







