
بہت سے سیاسی مبصرین یہ تبصرہ کرتے پائے جا رہے تھے کہ شہباز حکومت کے بعد نگران حکومتوں میں عمران خان اور پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف ملے گا۔ تاہم اب نگران حکومت کے حالیہ بیانات کےبعد یہ امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔ اس حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کے باخبر ذرائع سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی اںصار عباسی نے اپنے کالم میں مبینہ معلومات کی بنا پر یہ کہا ہے کہ اگلے چند ماہ میں سائفر کیس میں بڑی سزا ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تحریک انصاف اور اس کے رہنما9 مئی کے واقعات کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ چند ہفتوں یا مہینوں میں ادارہ اور لوگ اس واقعے کو بھول جائیں گے اوریہ بھی کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کے وجہ سے عمران خان کو مائنس کرنا ممکن نہیں ہو گا لیکن سب کچھ اُس کے برعکس ہو رہا ہے جو پی ٹی آئی سوچ رہی تھی۔
سائفر کیس میں بھی اُنہیں چند ماہ میں کوئی بڑی سزا مل سکتی ہے۔ 9 مئی کے علاوہ کچھ اور مقدمات بھی خان صاحب کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ایسے میں نہ کوئی سیاسی جماعت عمران خان سے بات چیت کرے گی، نہ ہی حکومت اور ادارے مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے۔ کاش عمران خان نے ماضی میں اپنے سیاسی مخالفین سے بات چیت کی ہوتی، اُن سے ہاتھ ملانے سے انکاری نہ ہوئے ہوتے۔
کاش عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج اور فوجی قیادت کو اپنے نشانہ پر نہ رکھا ہوتا، اُن کو بدنام نہ کیا ہوتا، اُنہیں جانور، میر جعفر اور میر صادق نہ کہا ہوتا،9مئی کا واقعہ نہ ہوا ہوتا۔ اب جو عمران خان مانگ رہے ہیں وہ اُن کے سیاسی مخالف ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔ عمران خان نے بہت دیر کر دی۔
تحریک انصاف اور اس کے رہنما9 مئی کے واقعات کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ چند ہفتوں یا مہینوں میںادارہ اور لوگ اس واقعے کو بھول جائیں گے اوریہ بھی کہ تحریک انصاف کی مقبولیت کے وجہ سے عمران خان کو مائنس کرنا ممکن نہیں ہو گا لیکن سب کچھ اُس کے برعکس ہو رہا ہے جو پی ٹی آئی سوچ رہی تھی۔ عمران خان جیل میں ہیں، توشہ خان کیس کی سزا تو کالعدم ہو چکی لیکن وہ الیکشن نہیں لڑ سکتے۔ اس کیس میں ضمانت مل گئی لیکن اٹک جیل سے اُن کا نکلنا ابھی ممکن نظر نہیں آتا۔
سائفر کیس میں بھی اُنہیں چند ماہ میں کوئی بڑی سزا مل سکتی ہے۔ 9 مئی کے علاوہ کچھ اور مقدمات بھی خان صاحب کا پیچھا کر رہے ہیں۔ ایسے میں نہ کوئی سیاسی جماعت عمران خان سے بات چیت کرے گی، نہ ہی حکومت اور ادارے مذاکرات کے لیے تیار ہوں گے۔ کاش عمران خان نے ماضی میں اپنے سیاسی مخالفین سے بات چیت کی ہوتی، اُن سے ہاتھ ملانے سے انکاری نہ ہوئے ہوتے۔
کاش عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج اور فوجی قیادت کو اپنے نشانہ پر نہ رکھا ہوتا، اُن کو بدنام نہ کیا ہوتا، اُنہیں جانور، میر جعفر اور میر صادق نہ کہا ہوتا،9مئی کا واقعہ نہ ہوا ہوتا۔ اب جو عمران خان مانگ رہے ہیں وہ اُن کے سیاسی مخالف ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دینے کے لیے تیار نہیں۔ عمران خان نے بہت دیر کر دی







