
تحریر: سلمان طارق
ملک میں مہنگائی کا طوفان خوفناک حدوں کو عبور کر چکا ہے۔ صورت حال کی سنگینی کا عالم یہ ہے کہ پانی ناک سے اوپر تو کیا عوام کو عملی طور پر ڈبو چکا ہے۔ روزانہ درجنوں خود کشیاں رپورٹ ہو رہی ہیں۔ روزانہ ایسی ویڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں جس میں ہٹے کٹے مرد بچوں کی بھوک پر بے بسی کا اظہار کرتے کرتے بچوں کی طرح بلک اٹھتے ہیں، چھلکتے آنسوؤں کو ہتھیلیوں سے چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ہچکیوں سے بندھ جاتے ہیں۔ یقین مانیں دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ انسان چاہے جتنا بھی مضبوط اعصاب کا مالک کیوں نہ ہو، خود چاہے کتتنے ہی دن بھوک پیاس کو برداشت کرنے کی سکت رکھتا ہو۔ اپنے معصوم بچوں کی بھوک کے آگے ٹوٹ جاتا ہے۔
76 سال بیتے اس ملک کو ظالم انگریزوں سے نجات ملے۔ لیکن وہ "ظالم” انگریز جاتے جاتے سب سے بڑا ظلم یہ کر کے گیا کہ اس ملک کی باگ ڈور ان خون کے پیاسوں کے حوالے کر دی جو نسل در نسل پاکستان کی نسلوں کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ مگر پھر بھی پیاس ہے کہ بجھتی ہی نہیں۔ اس ملک کی اشرافیہ کو صرف اس بات سے غرض یے کہ اسکا لائف سٹائل، اسکی خوراک، اسکے گھر ، اسکے گھر کے لان اسکا رہائشی علاقہ جدت پکڑتا جائے، چاہے اسکے لئے کتنے غریبوں کی بستیاں اجاڑنا پڑیں۔ اسے ہر سہولت نصیب ہو چاہے کتنوں کے ہی جھونپڑے ختم کرنا پڑیں۔ اسکے بچے مہنگے ترین سکولوں میں پڑھیں چاہے ہر غریب کا بچہ کم عمری میں ہی مزدوری پر مجبور ہو جائے۔
یوں کہہ لیں کہ عوام ایک فٹ بال کی مانند ہیں اور گراؤنڈ میں ایوب دور سے 22 "کھلاڑی” ہیں، جو کہ اب 22 سے 222 ہو چکے ہیں۔ بس پھر جو حال گراؤنڈ میں فٹ بال کا ہوتا ہے، عوام کا حال بھی اسی مانند ہے، کبھی اُدھر سے ادھر کو ٹھوکر ماری اور کبھی اِدھر سے اُدھر۔ اور اگر اس بال کو عوام کے دھڑ سے جدا ہوئے سر سے تشبیح دیں تو حالات کی سنگینی کی زیادہ واضح تصویر بن جاتی ہے۔
بد قسمتی یہ یے کہ اس اشرافیہ کا سب سے بڑا ہراول دستہ ہماری اسٹیشبلشمنٹ ہے، جو مسلسل انہیں کے زیر استعمال و خدمت گزار ہے۔ اب مثال کے طور پر بحریہ والے مَلک صاحب کو ہی دیکھ لیں۔ کوئی کہیں سے بھی ریٹائر ہو وہ سیدھا مَلک صاحب کی چاکری کے لئے انکے دربار میں حاضر ہو جاتا ہے۔ یعنی جو صاحب ابھی ریٹائر نہیں ہوئے وہ بھی مستقبل کا پلان ملک صاحب کی چوکھٹ کا بناتا یے۔ تو ایسے میں مَلک صاحب جس مرضی بستی کو فنا کریں، جن مرضی جھونپڑیوں کو ختم کریں، کون پوچھے گا؟ یہ ریٹائرڈ یا عنقریب ریٹائر ہونے والے بزرگ پوچھیں گے؟ نہیں بھائی، انکو انہیں جھونپڑیوں کی جگہ پر تو پلاٹ ملنے ہیں۔
مَلک صاحب تو ایک مثال ہیں۔ خون چوسنے میں مصروف پوری کی پوری اشرافیہ کا یہی طریقہ واردات ہے۔ یعنی جج جرنیل بھرتی کرو اور دما دم مست قلندر کرو۔ اور یہ دما دم مست قلندر 76 برس سے ایسے ہی جاری ہے۔ مگر اب صورت حال یہاں تک پہنچی ہے کہ عوام کا تو جیسے مکمل قلع قمع ہوتا نظر آرہا ہے، انکی رگوں میں تو شاید اتنا خون ہی نہ بچے کہ اشرافیہ کو چوسنے کے لئے مزید نصیب ہو۔ تو پھر ایسے میں وہ کیا کرے گی؟ کس کا خون چوسے گی؟ اگر آپ کو لگ رہا ہے کہ وہ خون چوسنا چھوڑ دے گی تو نہیں جناب وہ پیچھا نہیں چھوڑے گی۔ جناب وہ بڑی ظالم ہے، قبرستان تک پیچھا کرے گی۔ مردوں کو بھی نہیں چھوڑے گی۔ ان کی قبروں پر بھی پلاٹ بنائے گی اور دولت کمائے گی۔ بس ایسی ہے ہماری اشرافیہ۔ اور اس بات میں مبالغہ کتنا یے یہ جاننے کے لئے آپ روزانہ اخبار میں خود کشیوں کی خبریں پڑھیں آپ کو سہی معنوں میں اندازہ ہو جائے گا۔
جج جرنیل ہی جب چاکر ہوں تو کون حکمران کون وزیر کون صدر، سب کے سب حکم کی تعمیل کرتے ہیں ورنہ پھر جیل میں سڑتے ہیں۔ ایسا ہے کہ نہیں؟ پوری تاریخ دیکھ لیں۔ حکم کی تعمیل ہو کر رہتی یے چاہے چہرے بدلنے پڑیں۔
عالم یہ ہے کہ بلکتی عوام کو اب کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی۔اب وہ قسمت کو کوستے ہیں اور بھوک سے بلکتے اپنے ہی بچوں کی جان لے لیتے ہیں۔ کون کس سے دریافت کرے کہ ان ننھی جانوں کا آخر قصور کیا ہے؟ پیدا ہونا؟ اس ملک میں پیدا ہونا؟
خدا ہی حافظ ہو اس خدا کی بستی کا کہ جہاں سب اجڑ رہا ہے سوائے اس ملک کی اشرافیہ کے۔ جسے ٹِم ہارٹن کی کافی سے اپنے دن کا آغاز کرنا ہے اور نشے میں دھت ہو کر کسی غریب کو گاڑی تلے کچل کر اپنی شب کا اختتام۔







