
حال ہی میں سندھ کے پیروں کے گھر میں ننھی فاطمہ کی پراسرار موت سے بننے والے سکینڈل نے جہاں اندرون سندھ کے ان مذہبی رہنماوں کے اصل چہرے کو بے نقاب کیا ہے وہیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ کیسے انسانی استحصال کی آخری حدوں کو چھو رہے تھے۔ یہاں تک کہ اب جب غلامی ختم ہو چکی ہے وہاں پر کنیزیں پیروں کی خدمت میں موجود ہوتی ہیں۔ ان نو عمر لڑکیوں پر بے انتہا جسمانی و جنسی تشدد ہوتا ہے۔ اب تازہ ترین طور پر یہ کہانی سامنے آئی ہے کہ جب بی بی سی کی ٹیم اس سکینڈل کی صحافتی تحقیقات کے لیئے اس پیر خاندان کے ڈیرے پر پہنچی جہاں ننھی فاطمہ کی موت ہوئی تو انہیں بھی کمال ڈھٹائی سے ادھر سے جانے پر مجبور کیا گیا۔ ادارے کی اپنی رپورٹ کے مطابق سابق رکن قومی اسمبلی پیر فضل شاہ رانی پور کے پیر خاندان کے سیاسی بڑے ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں ان سے ان کے ڈیرے پر ملاقات ہوئی تھی لیکن اس بار بی بی سی کی ٹیم وہاں پہنچی تو ان کا ڈیرہ ویران تھا اور کسی نے ہم سے بات نہیں کی۔ اس معاملے پر پیر اسد کے سسر فیاض شاہ اور ان کے وکیل سے بھی بات کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے انکار کیا، جس کے بعد ہم گدی نشین پیر سورج دستگیر کے گھر گئے۔
گھر کے باہر دو بڑی گاڑیاں کھڑی تھیں جبکہ کونے میں ایک گھوڑا بندھا ہوا تھا اور ساتھ میں دو بڑے رکھوالی کے کتے موجود تھے۔
ہمیں یہ کہہ کر انتظار کرایا گیا کہ ’سائیں‘ آرام کر رہے ہیں۔ پھر ایک گھنٹے کے بعد بتایا گیا کہ کنیز کو بھیج کر اطلاع دی گئی ہے۔ دوپہر کے تین بجے بتایا گیا کہ وہ ناشتہ کر رہے ہیں، اس کے بعد نماز کا بتایا گیا اور پھر آگاہ کیا گیا کہ وہ نکل گئے ہیں اس لیے ملاقات نہیں ہو سکتی۔
اس ڈیرے سے باہر نکلے تو آس پاس کئی حویلیاں اور اونچی دیواریں تھیں، بعض میں سے کچھ نو عمر لڑکیاں کھانے لے کر آ جا رہی تھیں۔ ایک حویلی کے باہر پیر نانا شاہ موجود تھے لیکن انھوں نے بھی ہم سے بات کرنے سے انکار کر دیا۔







