ڈالر کی ٹرپل سنچری اور معیشت کی ابتر صورتحال

5، 6سال قبل ملک میں امریکی ڈالر کی قیمت 100روپے تھی۔ 2018ء کے بعد ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ ناگفتہ بہ ہوتی چلی گئی۔ معیشت کا پہیہ تھما، رُکا اور آہستہ چلا، بہتری کی کوئی سبیل دِکھائی نہ دی، وقت گزر رہا تھا اور مسائل بڑھتے چلے جارہے تھے۔ معیشت کے ساتھ کھلواڑ جاری رکھا گیا۔ اُس کی بہتری کی سبیل تو دُور کی بات اس ضمن میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی گئی۔ پچھلے پانچ سال کے دوران مہنگائی کی شرح میں تین گنا اضافہ ہوا۔ 2018ء میں جو آٹا 30، 35روپے کلو فروخت ہوتا تھا، آج وہ 150روپے فی کلو بک رہا ہے۔ اسی طرح چینی کی قیمت 50روپے سے 160روپے کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ 150، 200روپے کلو ملنے والے چاول آج 400روپے کلو فروخت ہورہے ہیں۔ دالوں کے نرخ دو تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ تیل، گھی کی قیمتیں 3گنا بڑھ چکی ہیں۔ اس سب کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مہنگائی کا عذاب جھیلنے والے غریب عوام کی آمدن وہی ہے جب کہ اخراجات دو تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخ تین چار گنا بڑھائے جاچکے ہیں۔ یہ بنیادی ضروریات غریبوں کی پہنچ سے دُور ہوچکی ہیں۔ اس بار بجلی کے بلوں نے غریب لوگوں کا بھرکس نکال دیا ہے۔ اُن کی ماہانہ آمدن سے زائد اُنہیں بل موصول ہورہے ہیں۔ اتنی کم بجلی استعمال کرنے کے اتنے زیادہ بل ارسال کرنا ظلم نہیں تو کیا ہے۔ اس ملک میں پچھلے پانچ برسوں میں غریب کُش اقدامات کی بھرمار دِکھائی دیتی ہے۔ کوئی ایک ایسا اقدام ڈھونڈے سے بھی نہیں دِکھائی دیتا، جس میں غریب عوام کی بہتری کی کوئی کرن بھی ہو۔ عوامی ریلیف کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تمام تر بوجھ غریبوں پر منتقل کرنے کی روش دِکھائی دیتی ہے۔ اس دوران حکمران رہنے والوں کی جانب سے دعوے غریبوں کے مسائل حل کرنے کے کیے جاتے رہے، لیکن درحقیقت غریب عوام کی چیخیں ہی نکالی گئیں۔ اُن پر چھپر پھاڑ کے مہنگائی کے عذاب نازل کیے گئے۔ کرونا وائرس کی عالمی وبا سے مانا کہ دُنیا متاثر ہوئی، لیکن اتنی بُری صورت حال دُنیا کے کسی خطے میں دِکھائی نہ دی، جتنی یہاں نظر آتی ہے۔ حکمرانوں سے ڈالر قابو ہوسکا نہ معیشت کی بہتری کی جانب گامزن ہوا گیا۔ بس دعووں کی ریل پیل رہی۔ ہر نیا دن کسی بُری خبر کے ساتھ آتا اور گزر جاتا ہے۔ خوش خبریوں کے فقدان نے اکثر عوام کو ذہنی مریض بناڈالا ہے۔ کتنے ہی لوگ مہنگائی، بے روزگاری کے عذاب برداشت نہ کرسکنے کے باعث اپنے بیوی بچوں سمیت خودکشی جیسا انتہائی قدم اُٹھا چکے ہیں۔ انہی ناقص پالیسیوں کے تسلسل کا نتیجہ ہے کہ آج ڈالر ملکی تاریخ میں پہلی بار 300روپے سے زیادہ کا ہوچکا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی کرنسی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ کاروباری ہفتے کے چوتھے روز انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت میں 61پیسے کا اضافہ ہوا، جس کے بعد انٹر بینک میں امریکی کرنسی 300روپے 25پیسے کی سطح پر ٹریڈ کر رہی ہے۔ یاد رہے کہ بدھ کو کاروباری دن کے اختتام پر انٹر بینک میں ڈالر 299روپے 64پیسے پر بند ہوا تھا۔ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کا بھائو 2روپے بڑھ کر 314روپے ہوگیا ہے۔ ادھر عالمی مارکیٹ میں سونے کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود مقامی سطح پر سونے کی قیمتیں مستحکم رہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں فی اونس سونے کی قیمت 11ڈالر اضافے کے ساتھ 1915ڈالر کی سطح پر پہنچ گئی جبکہ پاکستان میں سونے کی قیمتیں بغیر کسی تبدیلی کے مستحکم رہیں۔ مقامی صرافہ بازاروں میں فی تولہ سونے کی قیمت 2لاکھ 32ہزار 600روپے اور فی دس گرام سونی کی قیمت ایک لاکھ 99ہزار 417روپے کی سطح پر برقرار رہی۔ دوسری جانب پاکستان اسٹاک مارکیٹ اسٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان دیکھا گیا۔ اسٹاک مارکیٹ میں 300سے زائد پوائنٹس کا اضافہ دیکھا گیا، جس کے بعد 100انڈیکس 47ہزار 723 پوائنٹس کی سطح پر پہنچ گیا۔ بازار میں25کروڑ شیئرز کا کاروبار 12ارب 79کروڑ روپے میں طے ہوا۔ ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کا شاخسانہ ہے کہ ہر شے تین گنا مہنگی ہوچکی ہے۔ الیکٹرونکس آئٹم ہوں، موٹر سائیکلیں، گاڑیاں، تمام ہی چیزوں کے دام تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ ڈالر کو قابو کرنے کا نسخہ ڈھونڈنے پر کوئی توجہ نہیں۔ اس شتربے مہار کو کوئی قابو نہیں کرپارہا۔ مدت پوری ہونے کے بعد پچھلے دنوں جمہوری حکومت ختم ہوئی اور اقتدار نگراں حکومت کے سپرد ہوا۔ اس کے بعد سے تو ڈالر مسلسل اُڑانیں بھر رہا ہے۔ قابو میں آنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ مہنگائی قابو کی جا سکی نہ ڈالر، بس غریبوں کی زندگیوں کو روز بروز مشکل ضرور بنادیا گیا ہے۔ آخر ان لوگوں کا قصور کیا ہے۔ کاروباری افراد بھی پریشان ہیں۔ کارخانے اور فیکٹریاں بند ہورہی ہیں۔ سب کاروباری اپنے کاروبار کو محدود کر رہے ہیں۔ بے روزگاری کا عذاب دن بہ دن ہولناک شکل اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔ متوسط کہلایا جانے والا طبقہ اب غربت کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ یہ حقائق تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہیں۔ معیشت کی بحالی کے لیے درست راہ کا تعین ناگزیر ہے۔ ڈالر کو اُس کی پُرانی سطح پر لانے کے لیے راست اقدامات ناگزیر ہیں۔ اُن وجوہ کا پتا لگایا جائے کہ آخر ڈالر کس بناء پر اس حد تک پہنچ گیا ہے اور اُن کا تدارک کیا جائے۔ معیشت کی بہتری کے لیے راست کوششیں کی جائیں۔ وطن عزیز قدرت کی عطا کردہ عظیم نعمتوں سے مالا مال ہے۔ وسائل بے پناہ ہیں۔ ان کو درست خطوط پر بروئے کار لایا جائے تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ غریب عوام خوش حال ہوسکتے ہیں۔ بس حب الوطنی کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ملکی معیشت کی بہتری کی جانب قدم بڑھائے جائیں۔ گرانی کے عفریت کو قابو کیا جائے۔ ڈالر کی حشر سامانیوں کو کنٹرول کیا جائے۔ کاروبار دوست ماحول پروان چڑھایا جائے۔ غریبوں کی اشک شوئی کا بندوبست کیا جائے تو صورت حال بہتری کی جانب گامزن ہوسکتی ہے۔
افغانستان کیخلاف پاکستان کی شاندار کامیابی
پاکستان کرکٹ ٹیم نے دوسرے ایک روزہ بین الاقوامی میچ میں افغانستان کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد ایک وکٹ سے ہراکر سیریز میں 2۔0کی فیصلہ کُن برتری حاصل کرلی، پہلے ایک روزہ میچ میں پاکستان نے افغانستان کو 142رنز کے بڑے مارجن سے شکست دی تھی۔ نسیم شاہ نے آخری اوور کی پانچویں گیند پر چوکا لگاکر ٹیم کو کامیابی سے ہمکنار کرایا۔ ہمبنٹوٹا میں کھیلے گئے دوسرے ون ڈے انٹرنیشنل میں افغان ٹیم نے پاکستان کو جیت کے لیے 301رنز کا مشکل ہدف دیا تھا، جسے قومی ٹیم نے آخری اوور میں 9وکٹوں کے نقصان پر پورا کرلیا۔ افغانستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا جو درست ثابت ہوا اور افغان اوپنرز نے پاکستانی بائولرز کا جم کر مقابلہ کیا۔ افغان ٹیم کی جانب سے اوپنر رحمان اللہ گرباز نے 151گیندوں پر 151رنز بنا کر ٹیم کو بڑا اسکور بنانے میں مدد فراہم کی، ان کی اننگز میں 14چوکے اور 3چھکے شامل تھے۔ دیگر افغان بیٹرز میں ابراہیم زردان نے 80، محمد نبی نے 29اور حشمت اللہ شاہدی نے 15رنز کی اننگ کھیلی جب کہ میزبان ٹیم کی جانب سے مقررہ 50اوورز میں 5وکٹوں کے نقصان پر 300رنز بنائے گئے۔ پاکستان کی جانب سے شاہین شاہ آفریدی نے 2، نسیم شاہ اور اسامہ میر نے ایک، ایک کھلاڑی کو آئوٹ کیا۔ جواب میں پاکستانی ٹیم نے 301رنز کا ہدف آخری اوورر کی پانچویں گیند پر 9وکٹوں کے نقصان پر مکمل کرکے افغان ٹیم کو سنسنی خیز مقابلے کے بعد شکست دی۔ پاکستان کی جانب سے امام الحق نے 91رنز کی بہترین اننگز کھیلی جب کہ کپتان بابر اعظم نے 53رنز بنائے۔ دیگر بیٹرز میں شاداب خان نے 48، فخر زمان نے 30، افتخار احمد نے 17اور نسیم شاہ نے ناقابل شکست 10رنز کی اننگز کھیلی۔ افغان ٹیم کی جانب سے فضل الحق فاروقی نے 3اور محمد نبی نے دو کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا۔ شاداب خان کو 48رنز کی اننگز کھیلنے پر پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔ خیال رہے کہ دوسرے میچ میں کامیابی کے بعد قومی ٹیم کو تین میچز پر مشتمل ون ڈے سیریز میں 0۔2کی واضح برتری حاصل ہوگئی ہے۔ افغانستان کے خلاف یہ شان دار کامیابی ہے۔ بھرپور مقابلے کے بعد اسے حاصل کیا گیا ہے۔ اس کے لیے پوری ٹیم نے محنت کی۔ اس پر کپتان بابر اعظم سمیت پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ ایک موقع پر لگ رہا تھا کہ افغانستان ساڑھے 3سو کا ہدف دے گا، لیکن آخری اوورز میں پاکستانی بولرز نے عمدہ گیند بازی کا مظاہرہ کیا۔ 300رنز کا ہدف حاصل کرنا ایک روزہ مقابلوں میں چنداں آسان نہیں ہوتا۔ اس کا سہرا کپتان بابراعظم، امام الحق اور شاداب خان کے سر بندھتا ہے، جنہوں نے شاندار اننگز کھیل کر کامیابی قومی ٹیم کا مقدر بنائی۔ افغانستان کی بولنگ لائن بہت زبردست ہے۔ اس پر اتنے زیادہ رنز بنانا آسان نہیں ہوتا۔ خصوصاً بابراعظم اور امام الحق کے درمیان طویل پارٹنر شپ نے کامیابی میں اہم کردار نبھایا۔ آخری اوورز میں شاداب خان اور نسیم شاہ نے بہترین کھیل پیش کیا۔ پاکستان کو افغانستان کو وائٹ واش شکست سے دوچار کرنے کے لیے بھرپور محنت کرنی چاہیے۔ آخری مقابلے میں اُس کے خلاف کامیابی کے لیے بہترین حکمت عملی طے کی جائے۔ اس کے بعد ایشیا کپ ہے اور پھر ورلڈکپ کا میلہ سجے گا۔ ان شاء اللہ قومی ٹیم ان دونوں ایونٹس میں بہترین کھیل پیش کرے گی۔





