
رانا ساجد
کیا شاندار وطن تھا، حکمرانوں نے کیا سے کیا کر دیا ہے۔ موجودہ حکمرانوں کے سینوں میں کہیں دل بھی ہے؟
ایک ڈیڑھ برس پہلے پاکستان میں پانچ طرح کے لوگ تھے۔ اب دو طرح کے لوگ جا چکے ہیں اور تین طرح کے باقی رہ گئے ہیں۔
جانے والوں میں پہلے نمبر پر وہ لوگ ہیں جن کے پاس سرمایہ تھا، جائیدادیں تھیں، وہ اپنی جائیدادیں بیچ کر، سرمایہ سمیٹ کر کسی اور دیس جا بسے، ایسے افراد میں خاندانوں کے خاندان شامل ہیں
دوسرے نمبر پر جانے والوں میں انتہائی پڑھے لکھے، عالی دماغ، پروفیشنلز ہیں یعنی ذہین لوگ دھرتی کے نظام سے روٹھ کر کہیں اور جا بسے ہیں۔ اب یہاں باقی تین طرح کے افراد رہ گئے ہیں
پہلے نمبر پر غریب افراد ہیں، ان کی غربت انہیں باہر نہیں جانے دیتی۔ دوسرے نمبر پر نالائق، نکمے اور کند ذہن ہیں، ان کے راستے کی بڑی رکاوٹ نالائقی ہے
تیسرے نمبر پر مجبور افراد ہیں، کوئی بوڑھی ماں کو نہیں چھوڑ سکتا، کسی کی ذمہ داری بوڑھا باپ ہے، کوئی بہنوں اور بیٹیوں کی وجہ سے مجبور ہے، خاندانی مجبوریوں کے باعث یہ لوگ باہر جانے سے قاصر ہیں۔ تیسری طرح کے لوگوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو پڑھے لکھے تو ہیں مگر ان کے پاس ہوائی ٹکٹ بھرنے کا سرمایہ نہیں
*ایک ڈیڑھ برس میں قریباً تیرہ لاکھ افراد اس عظیم سر زمین کو چھوڑ گئے، اتنی بڑی ہجرت کا حکمرانوں پر کوئی اثر نہ ہو سکا۔ انہوں نے پارلیمان سے ستر سے زائد بل منظور کروائے۔ افسوس کہ یہ تمام بل حکمرانوں کے فائدے کے لئے منظور کئے گئے۔ عوامی مفاد میں کوئی بل پاس نہ ہو سکا۔*
اربوں روپے کے نیب مقدمات ختم ہو گئے اور لوگ دیکھتے ہی رہ گئے۔
یہاں سے صرف افراد نے نہیں، سرمایہ نے بھی ہجرت کی ہے، قریباً پچاس ارب ڈالر کے لگ بھگ سرمایہ چلا گیا اور کاروباری بندشوں کے باعث ملک کو تقریباً ڈیڑھ سو ارب ڈالر کا نقصان ہو گیا مگر ہم آئی ایم ایف کی قسطوں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں
کوئی ہے جو اس ملک اور عوام پر ترس کھا کر اس کو چلائے ؟؟؟







