تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

پاکستان سے نکلنے کی جلدی: کیا پاکستانی نوجوان غلط فہمی کا شکار ہیں؟

(رضا ہاشمی سے)

حالیہ برسوں میں پاکستانی نوجوانوں کی مغربی ممالک کی طرف بڑے پیمانے پر ہجرت ہوئی ہے تاہم امسال یہ رجحان اپنی انتہا پر نظر آیا۔ حالات یہ رہے کہ پاسپورٹ دفاتر پر اس قدر دباو آگیا کہ انہیں اپنے آپریشنز روکنے پڑے۔ مغربی ممالک کی جانب رخ کرنے والے نوجوانوں کی اکثریت ملک خداداد کے معاشی و سیاسی حالات سے متنفر دکھائی دیتی ہے۔ بلاشبہ یہ معاملہ خطرناک بھی ہے اورافسوسناک بھی کیونکہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبا اپنے سینیئرز کو یوں بددل دیکھتے ہیں تو وہ بھی مایوسی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ اس ملک کو مشکل حالات میں چھوڑ کر یہاں سے نکلنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا یہ کسی غلط فہمی میں مبتلا تو نہیں؟ جس وہ مغرب کو مواقع اور آزادی کی سرزمین کے طور پر دیکھتے ہیں کیا وہ واقعی انکی امنگوں کی ترجمان سر زمین ہے؟

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ دوسری طرف گھاس ہمیشہ سبز نہیں ہوتی۔ مغرب کے اپنے مسائل بھی ہیں، جیسا کہ زندگی کی زیادہ قیمت، نسل پرستی اور امتیازی سلوک۔ یہاں سے جانے والی نوجوانوں کی اکثریت وہاں جا کر قابل رحم حالت میں پائی جاتی ہے۔ کرونا اور یوکرین جنگ کے طفیل آنے والی کساد بازاری کے باعث اس وقت یورپ اورامریکی براعظم اپنی تاریخ کی بد ترین مہنگائی سے لڑ رہے ہیں۔ کاروبار لڑکھڑا رہے ہیں۔ اسلامو فوبیا کی بد سے بد تر ہوتی شکل سویڈن جیسے واقعات کی صورت سامنے آتی جا رہی ہے۔ معاشی دباو کے بطن سے دوام حاصل کرنے والے نسلی تعصبات دائیں بازو کی مغربی سیاسی جماعتوں کے بیانیوں میں واضح جھلک رہے ہیں۔ ایک زمانے میں عرب سپرنگ کے لئے ہیجان میں مبتلا عرب ممالک کی یوتھ کی بڑی تعداد اس کے فیوض و برکات سمیٹتی مغرب میں پناہ گزین ہے تو براعظم افریقہ سے بڑے پیمانے کی ہجرتوں سے سستی افرادی قوت کی فراوانی نے وہاں ملازمتوں کے معاوضہ کو کم کیا ہے۔ ایسے میں یہ یقینی طور پر درست ہے کہ بہت سے نوجوان نتائج پر مکمل غور کیے بغیر اپنا ملک چھوڑ رہے ہیں اور خاکم بدہن خدشہ یہی ہے کہ کہ وہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا کے مصداق درد ناک غریب الوطنی کاٹنے پر مجںور نہ ہوں۔

اس صورتحال پر قابو پانے کے لیئے حکومت پاکستان کو چاہئیے کہ ان مایوس نوجوانوں کو ہنگامی بنیادوں پر ڈیجیٹل انقلاب کے ہراول دستے میں تبدیل کرنے کا پروگرام ہنگامی بنیادوں پر دے ساتھ ہی ساتھ حکومت کو ایک قومی سطح کی آگاہی مہم چلانے کی بھی ضرورت ہے جس میں انکی کاونسلنگ کی جائے اور انہیں دیار غیر کے بارے میں حقائق سے روشناس کرایا جائے۔ جن ڈالروں کی خوشبو پانے کے لئے ہمارا مایوس نوجوان سب کچھ داو پر لگا کر یہاں سے نکلنے کی تگ و دو میں کلپ رہا ہے اسے باور کروایا جائے کہ وہ ڈالر آج کے ڈیجیٹل دور میں گھر میں اپنوں کے درمیان رہ کر بھی کما سکتا ہے بشرطیکہ درست ہنر اسکے پاس ہو۔

جواب دیں

Back to top button