پنڈی بھٹیاں کا افسوسناک حادثہ

ملکی تاریخ عظیم سانحات سے بھری پڑی ہے۔ ہر کچھ روز بعد ایسا واقعہ سامنے آتا ہے، جس پر پوری قوم اشک بار ہوجاتی ہے، ہر دردمند دل اُداس ہوجاتا ہے۔ حادثات دُنیا بھر میں ہوتے ہیں، لیکن اس بڑے پیمانے پر اموات کہیں بھی دیکھنے میں نہیں آتیں جب کہ وطن عزیز میں ہر کچھ دن بعد کوئی نہ کوئی ایسا حادثہ جنم لیتا رہتا ہے، جس میں غفلت اور لاپروائی کی انتہا کردی جاتی ہے۔ انسانی جانوں کو کوئی وقعت ہی نہیں دی جاتی، ایسے واقعات پر سب ہی کفِ افسوس مَلتے دِکھائی دیتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بس افسوس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ زخمیوں اور جاں بحق افراد کے لواحقین کے لیے امداد کا اعلان کرکے اپنے تئیں اپنا فرض ادا کردیا جاتا ہے۔ پھر اگلے حادثے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ حادثات کی وجوہ کا تعین کیا جاتا ہے نہ ان کے تدارک کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ یہ روش برسہا برس سی جاری ہے اور نہ جانے کب تک چلتی رہے گی۔ ایسا ہی ایک انتہائی افسوس ناک حادثے میں 20مسافر جھلس کر جاں بحق ہوگئے اور گیارہ شدید زخمی بتائے جاتے ہیں۔ مسافر بس کو یہ حادثہ پنڈی بھٹیاں ایم فور کے قریب ڈرائیور کے سو جانے کے باعث پیش آیا، جھلسنے والے مسافروں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ ڈی پی او ڈاکٹر فہد کا کہنا ہے جاں بحق ہونے والے 15مسافروں کی لاشوں کو تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں شفٹ کردیا گیا، سی ای او ہیلتھ ڈاکٹر عمر راٹھور نے بتایا ہسپتال لائے گئے زخمیوں کی تعداد 8ہے۔ زخمی ہونے والوں میں 26سالہ عمر تعلق فیصل آباد، عالیہ عمر 25سال، امداد عمر 18سال، ساجد عمر 25سال، صابر عمر 39سال، نذر عمر 34سال، عبیرہ عمر 10سال، مسافیہ عمر 14سال، ذیشان عمر 20سال جبکہ عثمان عمر 15سال شامل ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں ایک ہی خاندان کے چار افراد بھی شامل ہیں، بدقسمت فیملی کا تعلق جلالپور بھٹیاں سے ہے، فیملی میں میاں بیوی دو بچوں سمیت چھ افراد شامل تھے، حادثے میں میاں بیوی، ایک بیٹی اور بیٹا جاں بحق جب کہ دو بچیاں زخمی ہوگئیں، زخمی ہونے والوں میں کراچی، خیرپور، فیصل آباد، جلالپور بھٹیاں اور پنڈی بھٹیاں کے مسافر شامل تھے۔ پولیس افسر نے بتایا مسافر بس جل کر خاکستر ہوگئی، حادثہ ڈیزل کے ڈرموں سے لوڈ کھڑی پک اپ سے ٹکرانے کے باعث صبح ساڑھے 4بجے پیش آیا۔ ایک گھنٹے کی محنت کے بعد آگ پر قابو پایا گیا۔ گاڑی میں بچ جانے والے مسافر نے بتایا، بس کا ڈرائیور رحیم یار خان میں تبدیل ہوا جب کہ پنڈی بھٹیاں ایم 3پر ٹول پلازہ کے قریب گاڑی کا پٹرول لیک ہوا۔ آئی جی موٹر وے پولیس سلطان علی خواجہ کے مطابق حادثہ کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق حادثہ بس ڈرائیور کی غفلت کی وجہ سے پیش آیا۔ آئی جی موٹر وے نے غفلت اور لاپروائی پر 9افسروں کو معطل کیا۔ تمام افسروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کے احکامات بھی جاری کر دئیے گئے ہیں۔ حادثے کے ذمے داران کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی ۔ محکمانہ کارروائی کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ کمیٹی 24گھنٹے کے اندر حادثہ کی رپورٹ جمع کرائے گی۔ زندہ بچ جانے والے مسافروں نے بتایا کہ مسافر بس کراچی سے اسلام آباد جارہی تھی، اچانک گاڑی سے ٹکر کے بعد بس کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، مسافروں کو باہر نکلنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے کوچ میں آتشزدگی کے باعث قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار اور جاں بحق افراد کے لواحقین سے دلی ہمدردی و اظہار تعزیت کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے انتظامیہ اور پولیس سے افسوسناک واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی ہے ۔ محسن نقوی نے انتظامیہ کو ہدایت کی کہ زخمی افراد کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں فراہم کی جائیں۔ پنجاب حکومت جاں بحق افراد کے لواحقین کے دکھ میں برابر کی شریک ہے۔ یہ بڑا افسوس ناک سانحہ ہے۔ ڈرائیور کی بدترین غفلت کے باعث کئی گھرانوں میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ اُن کے پیارے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُنہیں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اب اُن کے لواحقین مرحومین کی یاد میں زندگی بھر تڑپتے رہیں گے۔ افسوس سے بڑھ کر حادثات کے تدارک کے لیے راست اقدامات وقت کی اہم ضرورت محسوس ہوتے ہیں۔ آخر جاننا چاہیے کہ دُنیا بھر میں حادثات ہوتے ہیں اور مہذب ممالک میں حادثات کے نتیجے پر بڑے پیمانے پر اموات واقع کیوں نہیں ہوتیں؟ اس کی کیا وجہ ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ وہ ناصرف اس حوالے سے سیفٹی اقدامات کرتے ہیں بلکہ انسانی جانوں کو سب پر فوقیت دی جاتی ہے۔ غیر ذمے داری کے مظاہرے نہیں ہوتے۔ ٹریفک کے تمام تر قوانین پر سختی سے عمل درآمد کیا جاتا ہے۔ حکومت اور سرکاری ادارے اس حوالے سے اپنا موثر کردار ادا کرتے ہیں۔ دوسری جانب وطن عزیز میں نظر دوڑائی جائے تو غفلت اور لاپروائی کے لامتناہی سلسلے نظر آتے ہیں۔ غیر ذمے داری کی بدترین نظیریں قائم کی جاتی ہیں۔ یہاں آبادی کا بڑا حصّہ ٹریفک قوانین کی پاسداری کو اپنی توہین سمجھتا اور ٹریفک قوانین کی بُری طرح دھجیاں بکھیرتا ہے۔ کھٹارا، ناقابل سفر اور خطرناک گاڑیوں میں مسافروں کو ٹھونس ٹھونس کر بھرا جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ کہ انہیں فٹنس سرٹیفکیٹ بھی حاصل ہوتا ہے۔ ڈرائیورز کی اکثریت ریس لگاتی ہے اور اندھا دھند گاڑیوں کو سڑکوں پر دوڑایا جاتا ہے۔ ڈرائیور کی اکثریت نشے کی عادی ہوتی ہے۔ ایک کج ذہن کا فرد ڈھیروں مسافروں کی زندگیوں کو دائو پر لگا دیتا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حادثے میں ہوا ہے۔ گاڑیوں میں گیس سلنڈرز نصب ہوتے اور کرائے ڈیزل کی قیمت کے حساب سے وصول کیے جاتے ہیں۔ کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔ مسافروں کی زندگیوں سے یہ کھلواڑ آخر کب تک چلتا رہے گا۔ کب تک یوں ہی کئی زندگیاں ضائع ہوتی رہیں گی۔ ہمارے وطن میں ہر سال ہزاروں افراد حادثات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ کبھی ریلوے حادثات پوری قوم کو غم زدہ کر دیتے ہیں تو کبھی ٹریفک حادثات پر ہر کوئی غم و الم کی کیفیات کا شکار ہوجاتا ہے۔ بہت ہوچکا، اب حادثات کی روک تھام اور ان کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اموات کی وجوہ کا ناصرف پتا لگایا جائے بلکہ ان کا سدباب بھی کیا جائے۔ کھٹارا گاڑیوں کو سڑکوں پر چلانے کی اجازت ہرگز نہ دی جائے اور جو سرکاری افسر و عملہ ایسی گاڑیوں کو فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے۔ اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ نشان عبرت بنایا جائے۔ ڈرائیوروں کی تربیت کا بندوبست کیا جائے۔ اچھے، مضبوط ذہن کے حامل اور تربیت یافتہ ڈرائیوروں کو ہی گاڑیاں چلانے کی اجازت دی جائے۔ سلنڈرز کی حامل گاڑیوں کو سڑکوں پر ہرگز نہ چلنے دیا جائے۔ سب سے بڑھ کر ٹریفک قوانین کی پاسداری لازمی کی جائے۔ متعلقہ پولیس اس ضمن میں اپنا موثر کردار ادا کرے۔ درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔
منشیات کی سمگلنگ، تدارک ناگزیر
وطن عزیز میں منشیات کا عفریت بڑے پیمانے پر عرصہ دراز سے تباہ کاریاں مچا رہا ہے۔ ملکی آبادی کا بڑا حصّہ منشیات کی لت میں مبتلا ہے، اس بد عادت کے وہ لوگ بھی شکار ہیں، جو بظاہر نارمل زندگی گزار رہے ہوتے ہیں، تاہم چھپ کر نشہ کرتے ہیں۔ یہاں سے بڑے پیمانے پر منشیات بیرون ملک بھیجی جاتی اور منگائی جاتی ہے۔ سمگلر ہر طرح سے زہر کے پھیلاوے میں اپنا بھرپور حصّہ ڈال رہے ہیں۔ منشیات کی سمگلنگ کی روک تھام نہیں کی جا سکی ہے اور یہ مکروہ دھندا دھڑلے سے جاری ہے۔ دوسری جانب ملک کے طول و عرض میں منشیات کی فروخت سے ہمارے نوجوان بڑے پیمانے پر برباد ہورہے ہیں۔ لاتعداد قابل ذہن منشیات کے عفریت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ کتنے ہی گھرانوں کے چشم و چراغ گُل ہوچکے ہیں۔ کتنے ہی اپنے اہل خانہ کے لیے زندگی بھر کا عذاب بن گئے ہیں۔ کوئی شمار نہیں۔ اگر اس کا راستہ نہ روکا گیا تو یہ عفریت آگے چل کر مزید سنگین شکل اختیار کر سکتا ہے۔ منشیات کی خرید و فروخت اور اس کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے راست اقدامات ناگزیر ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان کوسٹ گارڈز نے بلوچستان کے ضلع پسنی میں کارروائی کرتے ہوئے 1488کلوگرام چرس برآمد کرلی۔ پاکستان کوسٹ گارڈز کو پسنی سے بھاری مقدار میں منشیات سمگل ہونے کی اطلاع ملی تھی، جس پر علاقہ کمانڈر نے افسران اور جوانوں پر مشتمل سرچ پارٹیاں تشکیل دیں۔ دوران سرچ پسنی کے علاقے کلانچ میں جھاڑیوں اور زیرِ زمین چھپائی گئی 1488کلوگرام اعلیٰ کوالٹی کی چرس برآمد کرلی گئی۔ اطلاعات کے مطابق یہ منشیات سمندر کے ذریعے بیرونِ ملک سمگل ہونا تھی۔ پکڑی جانے والی منشیات کی بین الاقوامی مارکیٹ میں مالیت 24.83ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ کوسٹ گارڈز نے منشیات قبضے میں لے کر قانونی کارروائی شروع کردی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل پاکستان کوسٹ گارڈز نے جوانوں کی اعلیٰ کارکردگی کو سراہا ہے۔ دوسری جانب ایئر پورٹس سیکیورٹی فورس نے ملتان، اسلام آباد اور پشاور ایئرپورٹس پر کارروائیاں کرتے ہوئے منشیات کی بڑی مقدار ضبط کرلی۔ ملتان سے دوحہ جانے والے مسافر محمد ابرار سے 1.170کلوگرام آئس ہیروئن، اسلام آباد سے دوحہ جانے والے مسافر راشد علی سے 810گرام جب کہ پشاور سے دوحہ جانے والے مسافر محمد نعمان سے 2.73کلوگرام آئس ہیروئن برآمد کرلی۔ منشیات کی اتنی وسیع پیمانے پر سمگلنگ لمحہ فکریہ ہونے کے ساتھ تشویش ناک ہے۔ ملک عزیز کو منشیات کے عفریت سے پاک کرنے کا عزم مصمم کیا جائے۔ اس حوالے سے موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے، جس کے تحت ملک بھر میں کریک ڈائون کا آغاز کیا جائے۔ منشیات کی سمگلنگ اور فروخت کرنے والے عناصر کے خلاف تسلسل کے ساتھ اُس وقت تک کارروائیاں جاری رکھی جائیں، جب تک ان کا قلع قمع نہیں ہوجاتا۔ نوجوان نسل کو اس بُرائی سے بچانے کے لیے سنجیدہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔





