
پنڈی بھٹیاں میں آتشزدگی کا شکار ہونے والی بد قسمت بس میں سوار ایک خاندان ایسا بھی تھا کہ جن کی کہانی سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ محمد عمر اور ان کے اہلخانہ جن میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا انکے بس میں آخری لمحات کی کہانی سامنے آئی ہے جو کہ درد ناک ہے۔ محمد عمرکو نظر آگیا تھا کہ آگ نے سب کچھ اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے انہوں نے بس کی کھڑکی توڑنے کی کوشش کی لیکن ناکامی کے بعد وہ اپنے خاندان کو آگ کی لپیٹ میں جاتا دیکھنے لگے۔ انہیں معلوم ہوگیا تھا کہ وہ اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ان کے بھائی محمد امتیاز نے بتایا کہ ان کے بھائی عمر کراچی سے پنڈی بھٹیاں آ رہے تھے۔ ان کی 12 سالہ بھتیجی، جو اسی بس پر سوار تھیں، نے فون پر انھیں حادثے کی اطلاع دی۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انہوں نے بتایا کہ میرا بھائی کراچی میں انڈسٹری ایریا میں کام کرتا تھا۔ ان کے بچے یہاں پنڈی بھٹیاں سے چھٹیاں گزارنے اپنے والد کے پاس گئے ہوئے تھے۔ آج بچوں کی آخری چھٹی تھی اور کل انھیں سکول جانا تھا۔ میرے بھائی نے کل مجھے کال کی کہ وہ پنڈی بھٹیاں آ رہے ہیں اور میں انھیں انٹرچینج سے پک کروں۔
محمد امتیاز کے مطابق وہ صبح پانچ بجے پنڈی بھٹیاں انٹرچینج پر بس کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک انھوں نے بہت سے ایمبولینسز اور پولیس کی گاڑیاں موٹروے کی طرف جاتی دیکھیں۔
اتنی گاڑیاں دیکھ کر میرا دل بیٹھ گیا۔ میں نے سوچا کوئی حادثہ ہوا ہو گا۔ پتہ نہیں دل میں ڈر لگا کہ کچھ ہوا ہے۔ ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ میری بھتیجی کی کال آ گئی جو اسی بس میں سوار تھی۔ اس نے چیختے ہوئے بتایا کہ گاڑی کو آگ لگ گئی ہے۔ بس اس کے بعد ہم موٹروے کی طرف نکل پڑے۔
یہ بتاتے ہوئے امتیاز آبدیدہ تھے، وہ اس وقت تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال پنڈی بھٹیاں میں موجود تھے جہاں اس حادثے میں ہلاک ہونے والے 18 افراد کی میتیں پہنچائی گئی ہیں۔
یہ میتیں ’مکمل طور پر جل چکی ہیں اور ناقابلِ شناخت حالت میں ہیں۔
امتیاز نے بتایا کہ وہ جب بس حادثے کی جگہ پہنچے تو ’ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ پوری بس جل چکی تھی۔ ایک قیامت تھی۔ تھوڑے سے لوگ باہر پڑے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا، پھر میں نے اپنی دونوں بھتیجیوں کو دیکھا انھیں ایمبولینس میں ڈال کر لے جا رہے تھے، میرا ایک کزن ایمبولینس میں انہی کے ساتھ گیا ہے۔ وہ بتا رہا ہے کہ وہ بچ گئی ہیں اور ٹھیک ہو جائیں گی۔ مگر میری ان سے بات نہیں ہوئی ہے۔ انھیں فیصل آباد منتقل کیا گیا ہے۔‘
حادثے میں ان کے بھائی عمر اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ہمراہ ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ ان کی دو بیٹیاں جن کی عمریں 12 اور نو سال ہیں، اس وقت زیر علاج ہیں۔







