بھارتی آبی دہشتگردی، ستلج میں اونچے درجے کا سیلاب

پاکستان کے طول و عرض میں پچھلے مہینوں سے مون سون کی شدید بارشوں کے باعث صورت حال حوصلہ افزا قرار نہیں دی جاسکتی۔ شدید بارشوں سے بڑے پیمانے پر تباہیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ سیکڑوں شہری اپنی زندگیوں سے محروم ہوچکے ہیں۔ دیہات کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ تیار فصلیں برباد ہوگئی ہیں۔ بے شمار مویشی ہلاک ہوگئے ہیں۔ کتنے ہی شہریوں کے گھر سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ ماحولیاتی آلودگی سے وطن عزیز خاصا متاثر ہیں اور بڑے پیمانے پر موسمیاتی تغیرات جنم لے رہے ہیں۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ بارشوں میں بھی پہلے سے زیادہ شدّت آگئی ہے۔ پچھلے سال ہونے والی تیز بارشوں کے نتیجے میں سندھ میں لاتعداد لوگ متاثر ہوئے تھے۔ 1700سے زائد شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ لاکھوں گھر تباہ ہوگئے تھے۔ لاتعداد مویشی مر گئے تھے۔ تیار فصلیں خراب ہوگئی تھیں۔ دیہات کے دیہات سیلابی ریلے میں بہے اور ان کے نشانات معدوم ہوئے۔ سندھ کے سیلاب زدگان کی بڑی تعداد آج بھی بے یار و مددگار ہے۔ وطن عزیز میں ہر سال مون سون کی بارشیں سیلابی صورت حال کا باعث بنتی ہیں، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہ کاریاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ ایسے میں پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے آبی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے، جس سے ملک اور قوم کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ مہینے بھی بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کی گئی تھی، جس سے ملک و قوم کے مصائب بڑھے۔ بھارت نے اپنے خبث باطن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیلابی پانی پاکستان میں چھوڑ دیا تھا۔ اب پھر اس نے آبی دہشت گردی کر ڈالی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق دریائے ستلج میں بھارت کی جانب سے چھوڑے گئے پانی کی وجہ سے اونچے درجے کا سیلاب آگیا، جس کے بعد ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے ( پی ڈی ایم اے) پنجاب کے ترجمان نے کہا کہ دریائے ستلج میں اونچے سے بھی انتہائی اونچے درجے کی سیلابی صورتحال ہے۔ گنڈا سنگھ کے مقام پر پانی کی سطح 23فٹ تک بلند اور بہائو 2لاکھ 78ہزار کیوسک ہے۔ ہیڈ سلیمانکی سے 80ہزار کیوسک پانی کا ریلا گزر رہا ہے۔ پاک فوج کو امدادی کاموں کے لیے بلا لیا گیا ہے۔ دریائی بیلٹ کے21مواضعات کی 53ہزار سے زائد آبادی کو فوری نقل مکانی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ لالیکا، چاویکا، وزیرکا، کوٹ مخدوم، بونگہ احسان، ککو بودلہ، پیر سکندر، کالیہ شاہ، جودھیکا سمیت دیگر علاقوں سے نقل مکانی جاری ہے۔ اب تک 4805افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق بھارت کی جانب سے 21اگست تک روزانہ کی بنیاد پر پانی چھوڑے جانے کی اطلاعات ہیں۔ سیلاب کے باعث متعدد حفاظتی بند ٹوٹنے اور بستیاں زیر آب آنے کا خطرہ ہے۔ منگلا ڈیم میں پانی کی سطح انتہائی بلند ہوگئی ہے۔ دریائے ستلج میں بیلی کلاں کا ایک رہائشی ڈوب گیا ہے۔ محمد نگر بستی ہیبتکے (بیلی کلاں) کا رہائشی فیض احمد ہٹھاڑ کے علاقہ سے مال مویشی نکالتے ہوئے سیلابی ریلے میں ڈوب گیا، جس کی لاش نکال لی گئی ہے۔ دریں اثنا ء سیلاب متاثرہ آبادی کے لیے مزید اہم انتظامی اقدامات نافذ کرتے ہوئے دفعہ 144نافذ کر دی گئی، جس کے تحت متاثرہ دیہات سے ہر فرد کا انخلاء لازمی ہے۔ کمشنر لاہور محمد علی رندھاوا کے مطابق 15 دیہات میں سے 4دیہات خالی ہوچکے ہیں جب کہ 11میں سے 92فیصد آبادی کا انخلاء مکمل کرلیا گیا ہے، ہفتہ کو انتظامی آپریشن دوبارہ شروع کیا گیا، تمام دیہات کو مکمل طور پر خالی کیا جائے گا، ہم نے ہدایات جاری کر دی ہیں کہ دیہات خالی نہ کرنے والے پر کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج ہوگا، خالی شدہ دیہات کی حفاظت کے لیے مناسب انتظامات کی خاطر پولیس تعینات کی جارہی ہے۔ کمشنر لاہور کے مطابق ریلیف کیمپس میں موجود افراد کو بہترین کھانا فراہم کیا جارہا ہے، پوری انتظامی مشینری موجود ہے ۔کشتیاں اور بیڑے موجود ہیں، تمام جانوروں کو بیڑوں کے ذریعے محفوظ مقام تک پہنچایا جارہا ہے، جانوروں کیلئے چارہ اور ونڈا محکمہ لائیو اسٹاک مہیا کررہا ہے، بڑی تعداد میں جانوروں کو بھی محفوظ جگہ پر منتقل کیا جا چکا ہے۔ بھارت کی جانب سے کی گئی یہ نئی آبی دہشت گردی ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ اپنے حصّے کی مصیبت کا رُخ پاکستان کی جانب موڑنے کی روش کو اُسے ترک کرنا چاہیے۔ آخر وہ کب تک یہ سلسلہ جاری رکھے گا۔ بھارت کو پاکستان کا وجود اوّل روز سے گوارا نہیں، وہ وطن عزیز کو نقصان پہنچانے کا ہر حربہ آزماتا ہے۔ آبی جارحیت کو انتہائی مذموم حربہ گردانا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ پاکستان کو بھارت کی آبی دہشت گردی کے تدارک کے لیے عالمی سطح پر بھرپور آواز اُٹھانی چاہیے۔ مہذب دُنیا اور عالمی ادارے بھارت کو اس روش سے باز رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ دوسری جانب پاکستان میں مسلسل سیلابی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر سال ہی انتہائی وافر مقدار میں پانی کا ضیاع ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ برساتی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے چھوٹے ہوں یا بڑے، انتہائی بڑے پیمانے پر ڈیمز تعمیر کیے جائیں۔ اس حوالے سے بہت لیت و لعل سے کام لے لیا گیا۔ ہمارے ملک میں آبی ذخائر کی تعمیر کو بھی چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ ملکی آبادی 24کروڑ سے متجاوز ہوچکی ہے۔ آبادی بے پناہ بڑھ چکی اور اُن کی ضروریات کے حساب سے آبی ذخائر انتہائی کم ہیں۔ ملک میں پینے کے پانی کی شدید قلت بھی رہتی ہے۔ ایسے میں سیاسی جماعتیں اور اُن کے رہنما اپنی سیاست کو چمکانے کے بجائے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں سوچیں۔ کالا باغ ڈیم سمیت تمام آبی ذخائر کو کاغذی سے بڑھ کر حقیقی روپ عطا کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں۔ افہام و تفہیم سے معاملات کو طے کیا جائے اور تنازعات کو دُور کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر آبی ذخائر تعمیر کرنے کے سلسلے کا آغاز کیا جائے۔ اس سے ناصرف پانی کی قلت کا مسئلہ حل ہوجائے گا بلکہ سستی توانائی کا حصول بھی ممکن ہوسکے گا۔ بس اس ضمن میں ملک و قوم کے مفاد میں بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
ہالینڈ میں قرآن کی بے حرمتی
پاکستان کی شدید مذمت
عرصہ دراز سے بیرونی دُنیا میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ اسلامو فوبیا کے رجحان میں ہولناک اضافے کے باعث صورت حال روز بروز گمبھیر ہوتی چلی جارہی ہے۔ انسانیت کا تقاضا ہے کہ اپنے دین پر قائم رہا جائے اور دوسرے ادیان اور اُن کی مقدس شخصیات کا عزت و احترام کیا جائے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے میں اسلام کے خلاف انتہائی سوچ پنپ رہی ہے، جس کا مذموم اظہار ان معاشروں کے نام نہاد مہذب لوگ آزادی اظہار رائے کے نام پر کرتے رہتے ہیں۔ کسی بھی مذہب کی بے توقیری آزادی اظہار رائے کے نام پر کرنا کسی طور مناسب نہیں۔ عیدالاضحیٰ کے موقع پر سویڈن سے قرآن پاک کی بے حرمتی کا سلسلہ شروع ہوا، جو تھمنے میں نہیں آرہا۔ دو ارب سے زائد مسلمانوں کی مسلسل دل آزاری کی جارہی اور اُن کے جذبات کو بُری طرح مجروح کیا جارہا ہے، لیکن اس پر حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک ادارے اور ممالک چپ سادھے بیٹھے ہوئے ہیں اور ان واقعات کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ مذمتیں تو کردی جاتی ہیں، لیکن ان کا راستہ روکنے کی کوئی سبیل نہیں کی جاتی۔ اب ایک بار پھر ہالینڈ میں آخری الہامی کتاب کی بے حرمتی کا مذموم واقعہ پیش آیا ہے، جس سے پورے عالم اسلام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ اسلامی دُنیا کے ممالک اس واقعے کی بھرپور مذمت کر رہے اور ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کے مطالبات کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بھی ہالینڈ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسلامو فوبیا کے حوالے سے ہونے والے اقدامات کو روکے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ دی ہیگ میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے ایک اور اشتعال انگیز اور انتہائی جارحانہ اقدام کی شدید مذمت کرتے ہیں، اس دانستہ اسلامو فوبک عمل سے دنیا بھر کے 2ارب مسلمانوں کے جذبات کو گہری ٹھیس پہنچی ہے۔ دفتر خارجہ نے کہا کہ ایسے اقدامات سے پُرامن بقائے باہمی اور بین المذاہب ہم آہنگی کو خطرہ ہے، اس قسم کی جارحانہ کارروائیوں کو اظہار رائے اور احتجاج کی جائز آزادی کسی صورت نہیں کہا جاسکتا۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ پاکستان بین الاقوامی قانون نفرت، امتیازی سلوک اور تشدد کے لیے اکسانے کی روک تھام اور ممانعت کرنے کا پابند کرتا ہے، آزادی اظہار ذمے داریوں کے ساتھ آتی ہے، عالمی برادری کی ذمے داری ہے کہ وہ نسل پرستانہ، غیر انسانی اور اسلامو فوبک کارروائیوں کو روکیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اقوام متحدہ میں اسلامو فوبیا سے نمٹنے کے عالمی دن کے طور پر منانے کی قرارداد منظور کی گئی، جس کا مقصد یہی تھا، قرآن پاک کی بے حرمتی پر پاکستان کے تحفظات ہالینڈ کے حکام تک پہنچائے جارہے ہیں۔ اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کا خیال رکھا جائے، نفرت انگیز اور اسلامو فوبک کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں، عالمی برادری اسلامو فوبیا کے خلاف آواز اٹھائے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کام کرے۔ مہذب دُنیا اور عالمی اداروں کو ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے اپنا کردار نبھانا چاہیے۔







