
سی ایم رضوان
خواتین وحضرات ایک ہنگامہ خیز اعلان سماعت فرمائیں۔ موجودہ صدر مملکت عارف حسین علوی نے عمران خان کی جماعت کا ایک عہدیدار ہونے کے باوجود آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیئے ہیں۔ اس بل کے قانون کی شکل اختیار کر جانے کے بعد عمران خان کے خلاف جو سائفر جیسی حساس دستاویز کے گم کر دینے اور اس سائفر کی ہی بنیاد پر اہم ترین ملکی رازوں کو افشا کرنے کے الزامات جو عمران خان پر عائد کئے جاتے ہیں۔ اس بل کے پاس ہونے بعد عمران کو الزامات سچ ثابت ہونے پر سنگین غداری کے جرم میں سزا ہو جانے کے یقینی خدشات نے سر اٹھا لیا ہے۔ دوسری جانب گزشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران کی پانچ سالہ نااہلی کا نوٹس بھی جاری کر دیا ہے۔ اب اگر کوئی یہ کہے کہ نواز شریف کو آئندہ اقتدار میں چوتھی بار آنے سے بھی کوئی نہیں روک سکتا تو یہ کوئی غلط دعویٰ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کے موجودہ بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ نواز شریف اب اتنی اہمیت رکھتے ہیں کہ عدالتوں سے انصاف حاصل کر کے اپنی نااہلی اور قید کی سزائیں ختم کروا سکیں اور آئندہ انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لے سکیں۔
یاد رہے کہ نواز شریف گزشتہ چند برسوں سے لندن میں ہیں۔ ماضی قریب میں پاکستان میں نئے آرمی چیف کی تقرری سمیت بہت سے اہم سیاسی اور غیر سیاسی فیصلوں کے لئے کئی حلقے لندن کی طرف دیکھتے رہے ہیں اور متعدد مناظر اور پس پردہ مناظر انہیں لندن میں ہی نظر آئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ یہ مناظر اس وقت بھی واضح طور پر نظر آئے جب کہ عمران خان ملکی سیاست میں مقبول اور موجود تھا اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تھے جبکہ اب تو صورت حال ہی مکمل طور پر نواز شریف کے حق میں آ گئی ہے۔ اب تو سچ مچ نواز شریف کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ ملک کے سیاسی منظر نامے کو اپنی مرضی کے مطابق ترتیب دے سکیں کیونکہ وہ اس وقت پاکستانی سیاست میں اہم ترین اور اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ ہیں۔ اب بھی اگر مستقبل قریب میں بالفرض ان کے کسی مخالف کا زور چڑھتا ہے اور ان کو گیم سے باہر کر بھی کر دیا جاتا ہے تو بھی وہ تھوڑے عرصے اور جزوی حد تک باہر رہیں گے۔ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ویسے تو ماضی میں بھی ان کو سیاست سے نکالنے اور اہم ملکی معاملات سے باہر رکھنے کی جتنی بھی کوششیں ہوئی ہیں وہ بالآخر ناکام ہی ہوئی ہیں لیکن اب تو مستقبل کا اختیار اور اقتدار خود پکے ہوئے آم کی طرح ان کی جھولی میں آ گرا ہے۔ البتہ اب وہ خود وزیراعظم بنتے ہیں یا کسی اور کو بنانے کا تجربہ کرتے ہیں۔ یہ آنے والے حالات ہی بتائیں گے۔ جہاں تک عمران خان کی سیاست کی بات ہے تو قومی اسمبلی میں اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے تک حکومت میں ہونے کے باوجود اس کی مقبولیت کافی حد تک کم ہو گئی تھی۔ اس کی اپنی پارٹی کے لوگ اس کو چھوڑنا چاہ رہے تھے لیکن اس کی حکومت ختم ہونے کے بعد اس کی مقبولیت میں تھوڑا اضافہ ہو گیا۔ پھر نو مئی جیسی ملک دشمن سرگرمی کی مبینہ طور پر منصوبہ بندی کرنے اور اس پر عملدرآمد کروانے کے الزامات نے عام عوام اور عمران کے درمیان ایک واضح دراڑ پیدا کر دی ہے۔ یاد رہے کہ 10اپریل 2022ء کو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہوا۔ وہ ایسا پہلا پاکستانی سیاستدان ہے جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوا۔ اب جبکہ سانحہ نو مئی کے بعد سے تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ پارٹی کے عوامی نمائندوں اور ووٹروں کے کتھارسس کے لئے اب تک دو متبادل نئی پارٹیاں استحکام پاکستان پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین بھی بن چکی ہیں۔ تحریک انصاف سے وابستہ سیاسی رہنمائوں کی جانب سے پارٹی چھوڑنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان میں زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو جولائی 2018ء کے انتخابات سے چند ماہ پہلے اور پانامہ کیس کا فیصلہ آنے کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ اب انہی میں سے درجنوں رہنما تحریک انصاف سے لاتعلقی اختیار کر کے عمران خان کے بارے میں بیانات دے چکے ہیں کہ عمران نے عسکری تنصیبات پر حملے کی بروقت مذمت نہ کر کے انہیں مایوس کیا ہے۔ گو کہ تحریک انصاف سے لاتعلقی کا اعلان کرنے والے ان رہنمائوں میں سے بھی بعض سانحہ نو مئی سے بری الزمہ نہیں۔ ان کے خلاف بھی اس ملک دشمنی پر کارروائیاں ہونی چاہئیں۔ سانحہ نو مئی کے بعد بھی عمران خان عسکری قیادت پر تنقید کرتے رہے ہیں اور نو مئی کے حملے کا الزام بھی عمران خان نے قومی اداروں پر لگا دیا۔ جس کی عسکری قیادت نے بلاواسطہ اور بالواسطہ طور پر مذمت بھی کی اور شرپسندوں کے خلاف آرمی ایکٹ 52 کی دفعہ 59کے تحت مقدمات درج کر دیئے گئے ہیں۔ آرمی قیادت نے واضح کر دیا ہے کہ عسکری تنصیبات پر حملے ناقابلِ برداشت ہیں اور ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے بتایا تھا کہ نو مئی کی ہنگامہ آرائی پر ملک بھر میں 449مقدمات درج ہوئے، جن میں 88انسداد دہشت گردی ایکٹ جبکہ 411دیگر قوانین کے تحت درج کے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے انسداد دہشت گردی کے مقدمات میں تین ہزار 946افراد کو حراست میں لیا گیا جن میں پنجاب میں دو ہزار 588اور خیبر پختونخوا میں گیارہ سو افراد کو گرفتار کیا گیا۔ سابق وفاقی حکومت کا یہ اعلان بھی انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ تھا کہ جن شر پسندوں نے سویلین مقامات پر عمارتوں کو نقصان پہنچایا ان پر انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے جبکہ عسکری تنصیبات پر حملہ کرنے والوں اور عسکری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ اس غرض سے ایک بل قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہو کر صدر مملکت عارف حسین علوی کے دستخطوں کا منتظر تھا جو کہ گزشتہ روز انہوں نے دستخط کر کے اسے قانونی شکل دے دی ہے۔ اب نو مئی کو پاک فوج پر حملہ آور ہونے جرم میں عمران خان سمیت کسی بھی پی ٹی آئی رہنما کے بچنے کا کوئی خدشہ نہیں رہا۔ دوسری طرف گو کہ مہنگائی اور دیگر سلگتے مسائل سابقہ مخلوط حکومت حل نہیں کر سکی تھی مگر یہ امر پورا ملک بخوبی جانتا ہے کہ انہوں نے ڈیفالٹ کے خطرات سے دوچار ریاست کو بچا کر درست معاشی سمت پر ڈال دیا اور اس کار حب الوطنی میں اپنی سیاست تک کو قربان کر دیا ہے۔ اب نواز شریف اسی بیانیے کے ساتھ انتخابات میں آئیں گے کہ انہوں نے دیگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ مل کر ملک کو بچا لیا ہے۔ ظاہر ہے باشعور عوام ان کا ساتھ دیں گے۔ اب صرف نواز شریف سے ہی معیشت میں بہتری کے یقینی اقدامات کی امید ہے۔ ورنہ تبدیلی اور نئے پاکستان کا تجربہ تو عوام کو موجودہ قاتل مہنگائی اور عالمی تنہائی سے دوچار کر گیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اقتدار سے محرومی اور دوبارہ سے اقتدارِ میں آنے کے لئے مقتدر حلقوں کو مرعوب کرنے اور انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کے طور پر اس نے نو مئی کو سویلین اور فوجی اہمیت کی سوا سو کے قریب حساس عمارات اور اداروں پر اپنے کارکنوں کے حملوں کروا کر فوج کے اندر سے فوجی قیادت کے خلاف بغاوت کی کوشش کی۔ جس پر فوجی عدالتوں اور دہشت گردی کی عدالتوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں۔ جسے باشعور پاکستانی عوام ماضی میں امریکہ میں ہونے والے نو ستمبر 2001ء کے واقعے سے بھی زیادہ ہولناک قرار دیتے ہیں۔ اب پوری قوم ان مجرموں کے خلاف مقدمات کا نتیجہ دیکھنے کی منتظر ہے۔ قوم کو دوسری جانب یہ بھی امید ہے کہ اگر نواز شریف دوبارہ اقتدار میں آ جائیں تو ملکی معیشت آج کے گئے گزرے دور سے اوپر اٹھ کر خطہ کی بڑی معیشت بن سکتی ہے۔ جہاں تک نواز شریف مخالف سیاسی طاقتوں کی بات ہے تو وہ ایک عمران خان ہی تھا جو خود اپنی ملک دشمن کارروائیوں کے باعث قید اور عوامی نفرت کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کی ملک دشمنی کی ایک تازہ جھلک گزشتہ روز یوم آزادی کے موقع پر دیکھنے میں آئی جبکہ اس کی جماعت پی ٹی آئی نے اپنے کارکنوں کو یہ حکم دیا کہ اس سال وہ یوم آزادی اور جشن آزادی نہ منائیں اور اس روز پاکستان مخالف نعرے لگائیں جس پر کہیں کہیں عملدرآمد بھی رپورٹ ہوا ہے۔







