شفاف انتخابات کا انعقاد اور وزیراعظم کا عزم

وطن عزیز میں گزشتہ دنوں جمہوری حکومت کی مدت پوری ہوئی اور وہ خوش اسلوبی کے ساتھ اقتدار سے علیحدہ ہو گئی، حکومت اور اپوزیشن کی افہام و تفہیم سے مقرر کردہ نگراں حکومت کو اقتدار سپرد کر دیا گیا، نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ بے داغ کردار کے حامل ہیں اور وہ اپنے مختصر دور میں ملک و قوم کی ترقی کے عزم کا اعادہ کر چکے ہیں۔ اُن کے لیے اپنے دور حکومت میں سب سے بڑا ٹاسک پُرامن اور شفاف انتخابات کا انعقاد کرانا ہے، تاکہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے اقتدار میں آکر ملک و قوم کی ترقی کے سفر کو جاری رکھ سکیں۔ اسی حوالے سے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ نگراں حکومت پاکستان میں آئین کے مطابق آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے پوری تندہی سے کام کرے گی۔ اپنی ٹوئٹ میں انہوں نے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کی جانب سے مبارک باد پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہم امریکہ کے ساتھ اپنی شراکت داری کو اہمیت دیتے ہیں اور خطے میں اقتصادی خوش حالی، جمہوریت اور استحکام کے لیے مشترکہ عزم کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مزید برآں نگراں وزیراعظم نے سیاحت اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کو مزید ترقی دینے کے احکامات جاری کر دئیے۔ نگراں وزیر اعظم کو ملک میں بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے کے لیے قائم خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC)پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ انوارالحق کاکڑ کی زیر صدارت اجلاس میں جہانزیب خان سیکرٹری عملدرآمد (SIFC)اور جمیل احمد قریشی سیکرٹری (SIFC)نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزیرِ اعظم کو خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تحت زراعت، کان کنی و معدنیات، آئی ٹی، توانائی اور دفاعی پیداوار میں بیرونی سرمایہ کے مواقع پیدا کرنے کیلئے اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔ وزیراعظم کو بریفنگ دیتے ہوئے SIFCکے تحت بیرونی سرمایہ کاری بڑھانے اور سرمایہ کاروں کی سہولت کیلئے Whole of the Governmentاپروچ کے بارے بھی بتایا، اور کہا گیا اس حکمت عملی کے تحت سرمایہ کاروں کو منصوبوں کیلئے ون ونڈو سہولت فراہم کی جائے گی۔ وزیراعظم نے جہانزیب خان اور جمیل احمد قریشی کی SIFCکے تحت ملک میں سرمایہ کاری کے فروغ کیلئے کوششوں کو سراہا، وزیراعظم نے کہا ملکی معیشت کی بہتری کیلئے SIFCاپنا کلیدی کردار ادا کرے گی، سیاحت اور انفرا سٹرکچر کے منصوبوں میں بھی بیرونی سرمایہ کاری کی بے شمار استعداد موجود ہے۔ وزیراعظم نے کہا نگراں حکومت اپنے مختصر دور حکومت میں اپنی تمام تر توانائیاں پاکستان کی معیشت کے استحکام اور ترقی میں صرف کرے گی، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل SIFCپاکستان کی معاشی ترقی کیلئے ایک امید کی کرن ہے۔ نگراں وزیراعظم کی جانب سے آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے عزم کا اعادہ خوش آئند ہے۔ اُنہیں اس حوالے سے راست اقدامات یقینی بنانے چاہئیں کہ عام انتخابات کی شفافیت پر کسی کو بھی اُنگلی اُٹھانے کی ہمت نہ ہوسکے۔ ایسا انتظام کیا جائے کہ یہ ملکی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات قرار پائیں، جن میں خالص عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کو اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کا موقع مل سکے۔ دوسری جانب نگراں وفاقی کابینہ کا اعلان کردیا گیا، ایوان صدر میں نگراں کابینہ کی تقریب حلف برداری ہوئی، جس میں وزرا نے حلف اٹھایا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نگراں وفاقی وزرا سے عہدے کا حلف لیا، نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ جلیل عباس جیلانی وزیر خارجہ، مرتضیٰ سولنگی وزیر اطلاعات ہوں گے، سرفراز بگٹی کے پاس داخلہ، سمندر پار پاکستانی اور انسداد منشیات کی وزارتیں ہوں گی، لیفٹیننٹ جنرل (ر) انور علی حیدر دفاع اور دفاعی پیداوار کے وزیر ہوں گے۔ احمد عرفان اسلم قانون و انصاف، قدرتی وسائل موسمیاتی تبدیلی اور آبی وسائل، محمد علی توانائی، پاور اور پٹرولیم کے وزیر ہوں گے، شمشاد اختر کے پاس خزانہ، محصولات، اقتصادی امور، شماریات اور نج کاری کے قلم دان ہوں گے۔ گوہر اعجاز تجارت، ٹیکسٹائل، صنعت اور پیداوار کے وفاقی وزیر ہوں گے، ڈاکٹر عمر سیف کے پاس انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے قلمدان ہوں گے، سمیع سعید منصوبہ بندی اور ترقی کے وفاقی وزیر ہوں گے، جمال شاہ کے پاس قومی ورثہ اور ثقافت کا قلمدان ہوگا۔ مدد علی سندھی وفاقی وزیر تعلیم، قومی ہم آہنگی اور امور نوجوانان ہوں گے، ڈاکٹر ندیم جان قومی صحت کے وفاقی وزیر ہوں گے، خلیل جارج انسانی حقوق اور ویمن ایمپاورمنٹ کے وفاقی وزیر ہوں گے۔ انیق احمد کے پاس مذہبی امور، بین المذاہب ہم آہنگی کے قلم دان ہوں گے، شاہد اشرف تارڑ وفاقی وزیر مواصلات، ریلوے، پوسٹل سروسز بندرگاہیں اور بحری امور کے وزیر ہوں گے۔ ایئر مارشل (ر) فرحت حسین مشیر برائے ہوا بازی ہوں گے، احد چیمہ وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ ہوں گے، وقار مسعود خان کو مشیر برائے خزانہ مقرر کردیا گیا، ایئر مارشل ریٹائرڈ فرحت حسین اور احد چیمہ کا عہدہ وفاقی وزیر جبکہ وقار مسعود کا عہدہ وزیر مملکت کے برابر ہوگا۔ نگراں وفاقی کابینہ میں6معاونین خصوصی بھی مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے مطابق مشال حسین ملک معاون خصوصی برائے انسانی حقوق اور ویمن ایمپاورمنٹ ہوں گی، جواد سہراب ملک معاون خصوصی برائے سمندر پار پاکستانی ہوں گے۔ وائس ایڈمرل ریٹائرڈ افتخار رائو بحری امور کے معاون خصوصی ہوں گے، وصی شاہ معاون خصوصی برائے سیاحت ہوں گے، ڈاکٹر جہانزیب خان معاون خصوصی برائے ایس آئی ایف سی ہوں گے، سیدہ عارفہ زہرا معاون خصوصی برائے تعلیم اور قومی ہم آہنگی ہوں گی۔ نگراں وفاقی کابینہ کے ارکان نے اپنے عہدوں کا حلف اُٹھا لیا ہے، ہر وفاقی وزیر اپنے شعبے کی ماہر شخصیت اور ملک و قوم کے لیے مثالی خدمات سرانجام دے چکا ہے۔ اُمید ہے کہ یہ تمام نگراں حکومت کے مختصر دور میں پاکستان اور اس کے عوام کی ترقی کے لیے ہر ممکن اقدام اُٹھائیں گے اور عوام کی آسانی کے لیے اپنی کاوشیں جاری رکھیں گے۔ اب جب نگراں کابینہ تشکیل پاچکی ہے تو اس کو ملک اور قوم کی بہتری کے لیے جتنا ممکن ہوسکے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ نگراں وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ساتھ مل کر ملک کی بہتری کے لیے اقدامات کر سکے، معیشت کی صورت حال میں بہتری لاسکے، ملک بھر میں شفاف اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد ممکن بنا سکے تو یہ تمام اوامر ملک و قوم کی بڑی خدمت میں شمار ہوں گے۔
بھارت اقلیتوں کیلئے جہنم
بھارت عرصہ دراز سے اقلیتوں کے لیے جہنم بنا ہوا ہے، وہاں خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کے قصے جگہ جگہ بکھرے نظر آتے ہیں، اُن سے حقِ زیست چھین لینے کی ڈھیروں بدترین نظیریں موجود ہیں۔ ہجوم کا جب دل چاہتا ہے، جھوٹا الزام لگاکر مسلمان کو زندگی سے محروم کردیتا ہے۔ بھارت میں ویسے تو دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک روا نہیں رکھا جاتا، تاہم مسلمان، خصوصی نشانے پر رہتے ہیں۔ اُن کو تعلیم میں مساوی موقع میسر ہیں نہ ملازمت کے حوالے سے اُن کے لیے صورت حال موافق ہے۔ بھارتی سماج میں بھی اُنہیں بدترین تعصب کو جھیلنا پڑتا ہے۔ زندگی کے سفر کو جاری رکھنے کے لیے بھارتی مسلمانوں کو خاصی جدوجہد کرنی پڑتی ہے، پھر بھی اُن کے لیے عرصہ حیات تنگ ہی رہتا ہے۔ بھارت میں جب سے انتہاپسند نریندر مودی کی حکومت آئی ہے۔ اقلیتوں کی زندگی دُشوار ترین ہوگئی ہے۔ مسلمان کسی طور محفوظ نہیں رہے۔ مسلم خواتین کی عزتیں بھی محفوظ نہیں۔ اُن کے ساتھ ہراسانی کے واقعات ہوش رُبا حد تک بڑھ گئے ہیں۔ وہاں مسلمانوں کو گائے کا گوشت کھانے کا جھوٹا الزام دھر کر قتل تک کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا۔ اسی الزام کے تحت پچھلے 8سال کے دوران 850مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق مودی کے بھارت میں گائے انسانی خون سے زیادہ قیمتی ہوگئی، عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق 2014سے اگست 2022کے دوران انتہا پسند ہندو گئورکھشک کے نام پر ساڑھے 8سو مسلمانوں کو شہید کر چکے ہیں۔ عالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق صرف 2014سے 2018کے درمیان 63گئورکھشک حملوں میں 44مسلمان شہید جب کہ 124زخمی ہوئے، ایک اور میڈیا رپورٹ کے مطابق 2014سے اگست 2022تک 206واقعات میں 850مسلمانوں کو گئورکھشک بریگیڈوں نے شہید کیا، صرف دہلی میں 200گئو رکھشک بریگیڈ ہیں، انڈین ایکسپریس دی گارڈین کی 2016کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں گئو رکھشک بریگیڈوں کی تعداد 5ہزار سے زائد ہے، 2015سے 2018کے درمیان 71گئورکھشک حملے ہوئے، جس میں میڈیا نے صرف 4رپورٹ کیے، ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے گئورکھشک حملوں میں شدید اضافہ ہوا۔ یہ حقائق تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہیں۔ مودی کے دور میں بھارت بدترین پستیوں میں جا چکا ہے، وہاں انتہاپسندی کا عفریت عروج پر ہے، جو کئی زندگیوں کے چراغ گُل کرنے کی وجہ بنا ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں بھارت میں سکھ، عیسائی، پارسی اور دیگر اقلیتوں کو بھی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک اور ادارے ان بدترین مظالم پر کہاں جا سوئے ہیں۔ اُنہیں بیدار ہونا چاہیے اور بھارت میں ہونے والے ان سفاکیوں، درندگی کا حساب لینا چاہیے اور بھارت کو ایسی مذموم کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدام کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔





