Editorial

کیا نگران وزیراعظم عوام کی توقعات پر پورا اُتریں گے؟

کسی بھی ملک میں سیاسی دانش پر مبنی فیصلے ملک اور قوم کے مفاد میں بہترین ثابت ہوتے ہیں۔ سیاست خدمت کا نام ہے، لیکن افسوس بعض لوگ اسے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے اور معاشرے میں شر پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ اسے ملک و قوم کی خوش قسمتی ہی قرار دیا جائے گا کہ پاکستان میں گزشتہ دنوں ایک جمہوری حکومت کی مدت پوری ہوئی۔ اسمبلی تحلیل ہوئی۔ کابینہ ٹوٹ گئی۔ حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق سے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو بنانے کا فیصلہ انتہائی خوش گوار ماحول میں کیا گیا۔ اسی کے ساتھ شہباز شریف نے حکومتی مدت پوری ہونے اور نگران وزیراعظم کو انتہائی احسن انداز میں اقتدار منتقل کیا۔ اب اسی طرح توقع کی جانی چاہیے کہ نگراں حکومت ملک میں عام انتخابات کا انعقاد شفافیت اور ایمان دارانہ طریقے سے کرائے اور پھر اقتدار عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کے سپرد کر دیا جائے، تاکہ جمہوریت کا سفر یوں ہی جاری رہے اور اس سے ملک و قوم کی بھلائی کے پہلو برآمد ہوتے رہیں۔ گزشتہ روز نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھا لیا۔ انوار الحق کاکڑ نے ملک کے نگران وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اٹھا لیا۔ نگران وزیراعظم کی حلف برداری کی سادہ اور پروقار تقریب پیر کو ایوان صدر میں منعقد ہوئی۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے انوار الحق کاکڑ سے نگران وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا۔ حلف برداری کی تقریب میں سبکدوش ہونے والے وزیراعظم شہباز شریف، چیئرمین سینیٹ، اسپیکر قومی اسمبلی، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، تینوں مسلح افواج کے سربراہوں سمیت صوبائی گورنرز اور وزرائے اعلیٰ، سابق وزرا، سیاسی رہنمائوں، پاکستان میں متعین مختلف ملکوں کے سفیروں اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔ نگران وزیراعظم حلف اٹھانے کے بعد وزیراعظم ہائوس پہنچے۔ افسران و عملے نے ان کا استقبال کیا۔ اس موقع پر ان سے وزیراعظم ہائوس میں تعینات عملے کا تعارف بھی کرایا گیا۔ نگران وزیراعظم نے تینوں مسلح افواج کے چاق و چوبند دستوں سے سلامی لی اور گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا جبکہ نگران وزیراعظم نے وزارت عظمیٰ کی ذمے داریاں سنبھال لی ہیں۔ انہوں نے تمام وزارتوں سے اہم امور پر بریفنگ طلب کرلی ہے۔ قبل ازیں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ سینیٹ کی نشست سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق انوار الحق کاکڑ نے نگران وزیراعظم نامزدگی کے بعد غیر جانبداری کے اپنے اصولی موقف کے تحت سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا ہے، جس کے بعد آئین کے آرٹیکل 64کی شق (1)کے تحت 14اگست 2023سے سینیٹ میں یہ نشست خالی ہوگئی ہے۔ ادھر شہباز شریف کو بطور وزیراعظم سبکدوش کر دیا گیا ہے، کابینہ ڈویژن نے باضابطہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا جبکہ کابینہ ڈویژن نے نگراں وزیراعظم کی تعیناتی کا بھی نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سُلجھی ہوئی شخصیت ہیں۔ تمام ہی سیاسی جماعتوں میں انہیں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ سب کے اتفاق سے اس عہدے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ تمام ہی سیاسی جماعتوں کی جانب سے ان کی تقرری کو اچھی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ سبھی مطمئن ہیں۔ گو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا دور مختصر ہوگا، لیکن انہوں نے ملک و قوم کی بہترین خدمت کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے مختصر دور میں بھی ملک و قوم کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھیں گے۔ اُن کی توقعات پر پورا اُتریں گے، ملک و قوم کے مفاد میں بہترین فیصلی کریں گے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ ابھی اپنی کابینہ کی تشکیل میں مصروفِ عمل ہیں۔ کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ عوام کی خدمت کا جذبہ رکھنے والی شخصیات کو نگراں وزارت کا قلم دان سونپا جائے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے کاندھوں پر سب سے بھاری ذمے داری عام انتخابات کے شفاف انعقاد کی ہے۔ اس حوالے سے ہماری تاریخ کسی طور غیر متنازع نہیں کہلائی جاسکتی۔ یہاں جب بھی عام انتخابات ہوئے، جیتنے والوں نے خوشی کے شادیانے بجائے جبکہ ہارنے والی جماعتوں اور رہنمائوں نے اپنی شکست کو دھاندلی کا پیش خیمہ قرار دیا۔ اُنہوں نے منتخب ہونے والوں پر بدترین دھاندلی کے الزامات لگائے، ٹھپے پہ ٹھپہ لگانے کی بازگشت سنائی دیتی رہیں۔ قوم مخمصے کا شکار رہی۔ اقتدار تو بہرحال جیتنے والوں کے سپرد کردیا گیا، لیکن پھر اُنہیں اپوزیشن کی جانب سے ٹف ٹائم دیا گیا۔ ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے کے بجائے اپوزیشن نے حکومت کی راہ میں روڑے اٹکانے کی روش اختیار کیے رکھی، جس کا خمیازہ قوم کو بھگتنا پڑا۔ اُن کے مسائل جوں کے توں رہے، بلکہ اُن میں اضافے ہی ہوتے رہے۔ ترقیاتی منصوبوں پر وہ توجہ نہ دی جا سکی، جس کے وہ مستحق تھے۔ یوں ملک اور قوم کو بھاری نقصانات کو جھیلنا پڑا۔ یہ مشقِ ستم ان شاء اللہ اس بار ترک ہونے کی امید کی جاسکتی ہے۔ ضروری ہے کہ اپنے مختصر دور حکومت میں نگران وزیراعظم امور مملکت احسن انداز میں چلانے کے ساتھ ملک میں شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے بھی راست اقدامات ممکن بنائیں۔ الیکشن کمیشن، سیکیورٹی اداروں اور نگران حکومت مل کر ملکی تاریخ کے پہلے غیر متنازعہ جنرل الیکشن کی داغ بیل ڈالیں۔ اس حوالے سے جو ممکن ہوسکے، وہ اقدامات کیے جائیں۔ تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں۔ دھاندلی، بے ایمانی اور بدعنوانی کے تمام تر راستے مسدود کر دئیے جائیں۔ یقیناً اس حوالے سے درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی جمہوری حکومت بہتر اور احسن انداز میں ملک و قوم کی خدمت کے سفر کا آغاز کر سکے گی۔
سی پیک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا
پاکستان اور چین کی دوستی کچھ برس کی بات نہیں، یہ تعلق عشروں پر محیط ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ مزید گہرا اور مضبوط ہوتا چلا جارہا ہے۔ چین اور پاکستان آہنی برادر ہیں۔ پاک چین دوستی کو سمندر سے بھی گہری اور ہمالیہ سے بھی بلند ٹھہرایا جاتا ہے۔ درحقیقت بھی ایسا ہی ہے۔ چین اور پاکستان کی دوستی کو دُنیا رشک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جب بھی پاک اور چین کو ایک دوسرے کی ضرورت پڑتی ہے تو دونوں ممالک فوری آموجود ہوتے ہیں۔ پاکستان پچھلے کچھ سال سے انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے۔ معیشت کی صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ چین نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے۔ سی پیک ایسے عظیم منصوبے میں چین اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ یہ ملک عزیز کے لیے گیم چینجر منصوبہ ہے اور اس سے پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے چین سے بے شمار ہنرمند وطن عزیز میں آکر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سی پیک منصوبہ عرصہ دراز سے دشمن قوتوں کی آنکھوں میں بُری طرح کھٹکتا چلا آرہا ہے۔ وہ اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ پاکستان کے سیکیورٹی ادارے چینی بھائیوں کی حفاظت کے لیے ہمہ وقت چوکس و تیار ہیں اور وہ بارہا دہشت گردی کے مذموم منصوبے ناکام بنا چکے اور چینی بھائیوں کو تحفظ فراہم کر چکے ہیں۔ بعض چینی بھائی دہشت گرد حملے میں ہلاک بھی ہوئے۔ بہرحال مجموعی طور پر ان کو پاکستان کی جانب سے مکمل سیکیورٹی فراہم کی جارہی ہے۔ ملک دشمن قوتیں سی پیک کو سبوتاژ کرنے پر کمربستہ ہیں۔ اُن کی مذموم کارروائیوں کو ہر بار پاک افواج نے ناکام بنایا ہے۔ گزشتہ روز بھی چینی بھائیوں پر گوادر میں حملہ کیا گیا، جس کو سیکیورٹی اداروں نے ناکام بنا ڈالا اور دو دہشت گردوں کو جہنم واصل بھی کر دیا۔ اسی حوالے سے چین نے دشمن قوتوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے پاک، چین اقتصادی راہداری اور پاکستان سے دوستی سبوتاژ کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے میڈیا کو دی گئی معمول کی بریفنگ کے دوران ایک سوال پر کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان دوستی اور سی پیک سبوتاژ کرنے کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ چین کا بیان گوادر میں بندرگاہ کے منصوبے پر کام کرنے والے چینی مزدوروں کے قافلے پر حملے کے ایک روز بعد آیا ہے، جہاں وفد کی سیکیورٹی پر فوجی اہلکار تعینات تھے، حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا، تاہم جوابی فائرنگ میں دو دہشت گرد مارے گئے تھے۔ چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اپنے بیان میں زور دے کر کہا کہ کوئی چینی شہری ہلاک یا زخمی نہیں ہوا اور حملے کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے ویبن نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ وہ منصوبہ سازوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور چین کے شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کریں۔ چین کا کہنا بالکل بجا ہے۔ پاک چین دوستی کو کوئی بھی سازش کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ افواج پاکستان سی پیک منصوبے اور چینی ہنرمندوں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ وہ ان کو بہترین سیکیورٹی فراہم کر رہی ہیں۔ چینی باشندوں کو نقصان پہنچانے کی دشمن کی کوئی بھی سازش کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ سی پیک ایسا عظیم منصوبہ جلد مکمل ہوکر پاک چین کے لیے انتہائی مفید اور کارآمد ثابت ہوگا اور دشمن کو بُری طرح ناکامی اور ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

جواب دیں

Back to top button