
رنگ بدلتا ہے آسمان کیسے کیسے۔۔۔ اس معاملے پر یہی مثل صادق آتی ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے درمیان عمومی طور پر ایک ہیجان آمیز رشتہ دیکھنے میں آتا ہے۔ یہی انداز عمران خان کی 9 مئی کی گرفتاری کے وقت بھی سامنے آیا جب تحریک انصاف کے کارکنان مبینہ طور پر ایک منظم پلان کے تحت پاک فوج کی اہم عمارتوں پر چڑھ دوڑے، عمارتوں کو نذر آتش کیا، یاد گار شہدا کو پامال کیا گیا۔ تاہم ایک سخت رد عمل کے بعد عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں عدالت سے سزا ملنے کے بعد گرفتاری کے وقت ایک بھی کارکن زمان پارک کے نزدیک بھی نہ پھٹکا۔ نمائندہ جہان پاکستان عبدالرحمان راشد جو کہ زمان پارک موجود تھے کے مطابق گرفتاری سے قبل اور بعد میں بھی تحریک انصاف کا کوئی کارکن روایتی جوش و خروش تو دور کی بات کوئی اپنی موجودگی بھی نہ قائم کرپایا۔ بی بی سی نے لکھا کہ ایک وہ وقت تھا جب نو مئی اور اس سے قبل عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کو روکنے کے لیے زمان پارک کے اردگرد سینکڑوں کارکنان جمع تھے اور پولیس سمیت کسی کو اس گلی میں داخل نہیں ہونے دیا جا رہا تھا جہاں عمران خان کی رہائش گاہ ہے۔
مگر اب کی بار ایسا نہیں تھا۔ ہفتہ کو عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر کارکنان سرے سے موجود ہی نہ تھے۔گذشتہ روز گرفتاری کے بعد زمان پارک کی رہائش گاہ کے اندر صرف ان کے وکلا اور سکیورٹی کے لوگ موجود تھے۔ باہر کچھ درجن افراد جمع ہوئے جو پُرامن رہتے ہوئے نعرے بازی کر رہے تھے مگر پولیس کے پہنچنے پر وہ بھی منتشر ہو گئے۔
دوسری جانب میڈیا رپورٹس کے مطابق بعض خواتین کارکنان کے ساتھ موجود مرد انھیں میڈیا پر بیان بازی سے ٹوک رہے تھے کیونکہ اس سے دوبارہ پی ٹی آئی کے لیے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کا یہ رخ افسوسناک ہونے کے ساتھ ہی ساتھ دلچسپ بھی ہے کہ کیسے ایک شخصیت پرستی پر کھڑی ایک جماعت کے مرکز و محور اور رہبر پر جب برا وقت آیا تو انہوں نے اپنے ساتھ ایک بھی کارکن کو نہ پایا۔







