Editorial

سعودیہ، قطر، امارات کا پاکستان کیلئے بڑا قدم

 

پاکستان اپنے قیام سے ہی تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں، اس حوالے سے وطن عزیز کی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ چند ایک ملکوں کو چھوڑ کر پاکستان کے تمام ہی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں۔ دو طرفہ تعاون کے سلسلے دراز ہیں۔ سعودی عرب اور چین کی بات کی جائے تو ان دونوں ملکوں کے ساتھ پاکستان کے تعلقات انتہائی گہرے ہیں۔ کسی بھی مشکل وقت میں یہ دونوں پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر کھڑے ہوتے اور کٹھن صورت حال کے سدباب میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ دوستی آج اور کل کی بات نہیں، یہ عشروں پر محیط دوستی کا سفر ہے، جس میں سعودی عرب اور چین ہمیشہ کھرے ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان کی ترقی میں ان دونوں کا ناقابل فراموش کردار ہے۔ پاکستان کی حکومت اور عوام سعودی عرب اور چین کی دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور قطر بھی پاکستان کے مشکل وقت میں ساتھ نبھانے میں سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی معیشت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ سعودی عرب، چین، قطر، متحدہ عرب امارات کا اس موقع پر کردار کبھی بُھلایا نہیں جاسکے گا۔ آئی ایم ایف معاہدے کی تکمیل میں انہوں نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان کی ہر ممکن مدد کو یقینی بنایا ہے۔ اب بھی سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات وطن عزیز کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں اور اس حوالے سے ان ملکوں نے 8ارب ڈالر کی خطیر رقم سے ’’ پاکستان ساورن فنڈ’’ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس حوالے سے سابق سعودی سفیر علی عواض العسیری نے اپنے مضمون میں انکشاف کیا ہے کہ سعودی عرب، قطر اور متحدہ عرب امارات و دیگر خلیجی ریاستوں نے 8ارب ڈالرز کا ’’ پاکستان ساورن فنڈ’’ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ عرب نیوز میں لکھے مضمون میں علی عواض العسیری کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے دور میں پاکستان اور خلیج تعاون تنظیم ( جی سی سی) کے درمیان شراکت داری کے نئے دور کا آغاز ہوا، شہباز شریف نے مشکل معاشی حالات میں اہم پالیسی فیصلے کیے اور انہوں نے سعودی عرب، یو اے ای اور قطر کے ساتھ سرمایہ کاری اور گہرے تجارتی تعلقات کو فروغ دیا۔ سابق سعودی سفیر نے بتایا کہ جی سی سی کی سرکردہ معیشتوں نے پاکستان کی معاشی بحالی اور استحکام میں حصہ ڈالنے پر آمادگی ظاہر کی، پاکستان نے ہمیشہ سعودی عرب و دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی، دفاعی اور ثقافتی تعلقات کو ترجیح دی، خلیجی ممالک پاکستانی تارکین وطن کا دوسرا گھر ہیں۔ علی عواض العسیری کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو گزشتہ برس اپریل میں اقتدار سنبھالنے کے بعد اہم چیلنجز کا سامنا تھا، انہیں ڈیفالٹ کے دہانے پر موجود ملک ورثے میں ملا، جی سی سی ممالک کے ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری پاکستان کی معیشت کیلئے اہم ہے اور موجودہ سول ملٹری قیادت جی سی سی ممالک کے ساتھ معاشی شراکت داری کو اہم سمجھتی ہے۔ سابق سعودی سفیر نے انکشاف کیا کہ پاکستان ساورن فنڈ بنایا جائے گا اور یہ ساورن فنڈ بیوروکریٹک اور ریگولیٹری دقتوں سے پاک ہوگا، سات ریاستوں کے 2.3ٹریلین روپے (8ارب ڈالرز) کے اثاثے اس فنڈ میں منتقل کیے جارہے ہیں، فنڈز کی آمدن بڑی سرمایہ کاری کیلئے استعمال ہوگی۔ علی عواض العسیری نے بتایا کہ حکومت خلیجی ممالک کے ساتھ مل کر خسارے والے اداروں کی نجکاری اور لیزنگ پر کام کرے گی، 2035تک پاکستان کی معیشت ایک ٹریلین ڈالر ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے پاکستان کو بحرانوں سے نکال کر استحکام کی راہ پر ڈال دیا، انہوں نے بہترین کام کیا ہے اور پاکستان کی معاشی بحالی کے امکانات میں اضافہ کر دیا ہے، آرمی چیف اور دیگر فوجی حکام کی شمولیت سے تسلسل، شفافیت اور احتساب کی اہم ضمانت مل گئی۔ سابق سعودی سفیر نے لکھا کہ پاکستان اب مستحکم ہے اور نگراں دور کی طرف جارہا ہے۔ نومبر میں جنرل عاصم منیر کی چیف آف آرمی اسٹاف تقرری کے بعد سیاسی بحران ختم ہونا شروع ہوا۔9ماہ کا 3ارب ڈالر کا ارینجمنٹ اور آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ ہوا۔ سی پیک بحال اور امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی معمول پر آگئے ہیں۔ سول ملٹری تعلقات کے اشتراک عمل کا دائرہ معاشی شراکت داری تک وسیع ہوگیا ہے۔ پاکستان کے غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے سعودی عرب، چین اور یو اے ای نے رعایتی قرض دیا۔ آئی ایم ایف کے مطالبے کو پورا کرنے کے لیے ان قرضوں کو رول اوور کر دیا گیا۔ سفیر نے مزید لکھا سعودی عرب کی طرف سے 2ارب ڈالر اسٹیٹ بینک میں رکھوانے کے بعد آئی ایم ایف سے ڈیل ممکن ہوئی۔ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ ہر مشکل حالات میں ہمیشہ کھڑا رہا ہے لیکن پاکستان کو اب اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہوگا۔ معاشی خودانحصاری کے لیے سپیشل انوسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل قابل عمل راستہ ہے۔ پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت غیر ملکی قرضوں پر انحصار کے خطرات سے آگاہ ہے۔ پاکستان کی موجودہ سول اور ملٹری قیادت دوست ممالک سے سرمایہ کاری کے ذریعے مضبوط معاشی بنیاد قائم کرنا چاہتی ہے۔ پاکستان کی طرف سے ون ونڈو کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی قلیل مقدار میں سرمایہ کاری ہوئی۔ غیر ضروری بیورکریٹک رکاوٹیں ہیں، جس سے سرمایہ کار کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ بیورو کریٹک قدغنوں کے باعث جاری منصوبوں کی تکمیل اور نئی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں، حکومتوں کی بار بار تبدیلی اور معاشی پالیسیوں کا عدم تسلسل ہوتا ہے۔ ان مسائل کے باعث سعودی عرب، یو اے ای اور قطر کی وجہ سے حالیہ ماضی میں بڑی سرمایہ کاری کے وعدے تکمیل کو نہ پہنچ سکے۔سعودیہ، قطر، امارات سمیت 7خلیجی ریاستوں کا پاکستانی معیشت کی بہتری کے لیے ساورن فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ ہر لحاظ سے قابل تحسین ہے۔ یہ عظیم دوستوں کی مثالی دوستی کی روشن نظیر ہے جو اپنے دوست ملک کی مشکلات میں کمی کی خاطر سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان قیامت تک قائم رہے گا۔ یہ وسائل سے مالا مال ملک ہے۔ حکومت نے معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے، جن کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں۔ دوست ممالک کے تعاون سے ان شاء اللہ جلد پاکستانی معیشت کی صورت حال بہتر رُخ اختیار کرے گی۔ حکومت کو اس حوالے سے مزید راست اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ شاہانہ اخراجات سے جان چھڑائی جائے۔ معیشت کی بحالی کے لیے شفافیت پر مبنی اقدامات ممکن بنائے جائیں۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔
ای سیفٹی اتھارٹی بنانے کا صائب فیصلہ
پاکستان میں سائبر کرائمز کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ عرصہ دراز سے سوشل سائٹس پر جعلی اکائونٹس کے ذریعے کسی کی بھی دل آزاری اور کردار کشی کے سلسلے دراز نظر آتے ہیں۔ متنازع اور ناقابل برداشت مواد بھی وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہتے ہیں، جو بہت سے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔ بعض سائٹس پر سادہ لوح لوگوں کے ساتھ جعل سازی کے قصے بھی کم نہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کو بلیک میل کرنے کی بھی کئی نظیریں موجود ہیں۔ اب بھی عالم یہ ہے کہ متنازع پوسٹس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اسی طرح لوگوں کے ساتھ فراڈ بھی بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ بلیک میلنگ کے کیسز میں بھی اضافہ ہورہا ہے، کردار کشی کی مہمات بھی دِکھائی دیتی ہیں۔ دوسری جانب بہت سی ویب سائٹس، یوٹیوب اور ویب چینلز رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ ان پر غیر معیاری مواد کی بھرمار ہے، مخرب الاخلاق مواد کے باعث نوجوان نسل بے راہ روی کی جانب راغب ہورہی ہے۔ ان کو رجسٹرڈ نہ کیا گیا اور قواعد و ضوابط کا پابند نہ بنایا گیا اور اخلاق سے پرے مواد کو ہٹایا نہ گیا تو اگلے وقتوں میں صورت حال مزید سنگین شکل اختیار کر سکتی ہے۔ سب سے بڑھ کر ان سب سائٹس کی مانیٹرنگ اور متنازع چیزوں کے تدارک کا موثر نظام نہیں، جس کے باعث سائبر کرائمز ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اس تناظر میں سائبر کرائمز پر کنٹرول کے لیے موثر اقدامات کی ضرورت خاصی شدّت سے محسوس ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اچھی اطلاع یہ ہے کہ ملک بھر میں بڑھتی ہوئی آن لائن سرگرمیوں اور سائبر کرائمز کے معاملات کی مانیٹرنگ کے لیے پی ٹی اے طرز کی الگ ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ نئی ریگولیٹری اتھارٹی کا نام ای سیفٹی اتھارٹی ہوگا، وزارت آئی ٹی نے بل وفاقی کابینہ کو بھجوا دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ تمام ویب سائٹس کی مانیٹرنگ ای سیفٹی اتھارٹی کرے گی۔ بل کے مطابق ویب سائٹس کے اجازت ناموں اور قانون کی خلاف ورزی پر جرمانوں کا اختیار اتھارٹی کے پاس ہوگا، اتھارٹی ٹی وی چینلز، اخبارات کی ویب سائٹس کی بھی نگرانی کرے گی، اتھارٹی کے پاس ویب چینلز کو لائسنس دینے کا اختیار بھی ہوگا۔ رپورٹ کے مطابق ویب مانیٹرنگ کا اختیار پی ٹی اے سے واپس لیا جائے گا، پیکا ایکٹ کے تحت ایف آئی اے کو حاصل اختیارات کو بھی ناکافی قرار دیا گیا ہے۔ ای سیفٹی اتھارٹی بل کے مطابق پیکا ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا رولز بنے، وہ بھی کارآمد ثابت نہ ہوئے، پی ٹی اے کو سوشل میڈیا پر مواد کو بلاک کرنے کی رسائی نہیں، پیکا ایکٹ کے مطابق سائبر کرائمز کے تدارک کے لیے الگ اتھارٹی نہیں بنائی گئی، ٹاسک ایف آئی اے کو دیا گیا، جس پر پہلے ہی دیگر معاملات کے باعث بوجھ ہے۔ وفاقی حکومت نے ویب سائٹس، ویب چینلز اور یوٹیوب چینلز کی رجسٹریشن کا فیصلہ بھی کیا ہے، پی ٹی اے، ایف آئی اے سائبر کرائمز کے اختیارات اتھارٹی کو منتقل ہوں گے۔ ای سیفٹی اتھارٹی بنانے کا فیصلہ بالکل صائب معلوم ہوتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس کو جلد از جلد حتمی شکل دے کر فعال کیا جائے، اصول و ضوابط پر سختی سے کاربند رہا جائے، نوجوان نسل کے اخلاق کو تباہی سے بچانے کا بندوبست کیا جائے، تاکہ اوپر بیان کردہ خرابیوں، برائیوں کا سدباب کرنے میں مدد مل سکے۔

جواب دیں

Back to top button