سویڈن میں قرآن پاک کی پھر بے حرمتی

کئی سال سے دُنیا کے مختلف خطوں میں خاتم النبیین حضرت محمدؐ کی توہین اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ ایسی ناپاک حرکات کے باعث مسلمانوں کے جذبات بُری طرح مجروح ہوتے ہیں، اُن میں ان مذموم واقعات کے باعث شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے، نبی کریمؐ کی شان میں گستاخی مسلمان برداشت نہیں کر سکتے کہ وہ دُنیا میں سب سے زیادہ محبت اور احترام آپؐ کا ہی کرتے ہیں۔ آپؐ مسلمانوں کے لیے معتبر ترین ہستی ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک مسلمانوں کے لیے مقدس ترین الہامی کتاب ہونے کے ساتھ مکمل ضابطۂ حیات بھی ہے۔ اس کی بے حرمتی مسلمانوں کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو اسلام وہ دین ہے، جس کے ماننے والوں نے کبھی بھی کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کی، مسلمان تمام مذاہب کے ماننے والوں کی عزت و احترام کرتے ہیں، کسی کے مذہب سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے، کسی کا مذاق نہیں اُڑاتے، توہین بھی نہیں کرتے۔ اس کے باوجود دینِ اسلام کے خلاف دُنیا میں بعض ایسے عناصر متواتر اپنی مذموم سرگرمیوں میں مصروفِ عمل ہیں، جو ہر لحاظ سے قابل مذمت قرار پاتی ہیں۔ اسلامو فوبیا کے واقعات میں پچھلے کچھ برسوں کے دوران ہوش رُبا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ نامعلوم کیوں چند مُٹھی بھر عناصر اپنی مذموم سرگرمیوں میں مصروفِ عمل رہتے ہیں اور انہیں جب موقع ملتا ہے وہ نفرت کو ہوا دیتے دِکھائی دیتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عرصۂ دراز سے دُنیا کے مختلف خطوں میں ناصرف توہینِ رسالت کے مذموم عمل تواتر سے ہوتے آرہے ہیں بلکہ قرآن پاک کی بے حرمتی کے بھی ڈھیروں واقعات وقوع پذیر ہوچکے ہیں۔ ہر کچھ عرصے بعد ایسا کوئی نہ کوئی مذموم واقعہ رونما ہوتا ہے، جس سے پورے عالم اسلام کے جذبات بُری طرح مجروح ہوتے ہیں۔ مسلم امہ ان واقعات پر اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔ عالمی ادارے اور ممالک بھی ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہیں۔ اسلامی تعاون تنظیم بھی اس پر اپنا لائحہ عمل طے کرتی ہے، کچھ روز معاملات ٹھیک رہتے ہیں، پھر ایسی دوسری کوئی ناپاک حرکت سامنے آجاتی ہے۔ عیدالاضحیٰ کے روز سویڈن میں ایک ملعون عراقی شہری سلوان مومیکا نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تھی۔ اس واقعے پر پوری دُنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ اس واقعے کو 20، 22روز ہی گزرے تھے کہ پھر سے اسی ملعون نے سویڈن حکومت کی اجازت سے دوبارہ وہی ناپاک حرکت کر ڈالی۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ملعون سلوان مومیکا نے ایک بار پھر پولیس کی سخت سیکیورٹی میں عراقی سفارت خانے کے باہر ناصرف قرآن پاک کی بے حرمتی کی بلکہ عراقی پرچم کو بھی پائوں تلے روندا۔ اس حوالے سے ملعون سلوان مومیکا کا کہنا ہے اس کا آئندہ 10روز میں قرآن پاک کی بی حرمتی اور عراقی پرچم کی تذلیل کا دوبارہ ارادہ ہے۔ قبل ازیں سویڈن پولیس نے دائیں بازو کے2انتہاپسندوں کو عراق کے سفارت خانے کے سامنے احتجاجی مظاہرے کی اجازت دی تھی۔ سویڈن میں عراقی سفارت خانے کے باہر ہونے والے واقعہ سے قبل ہی عراق نے سویڈن کو خبردار کیا تھا کہ اگر دوبارہ قرآن پاک کی بے حرمتی کا واقعہ رونما ہوا تو سویڈن کے
ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر سکتے ہیں۔ یہ واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ دُنیا بھر سے اس کے خلاف مذمتیں سامنے آرہی ہیں۔ اسلامی ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کے جذبات بُری طرح مجروح ہوئے ہیں۔ اُن میں اس مذموم حرکت پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ پاکستان سمیت سعودی عرب، ترکیہ، عراق، ایران اور دیگر اسلامی ممالک نے اس واقعے کی بھرپور مذمت کی ہے اور سویڈن کے سامنے اپنا شدید احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ امریکا کی جانب سے اس واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مذموم واقعے سے قبل سویڈن میں قرآن پاک کے نسخے کو نذرآتش کرنے کے خلاف جاری احتجاج کے دوران سیکڑوں مظاہرین نے عراق کے دارالحکومت بغداد میں سویڈش سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور اسے آگ لگادی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق احتجاج کی کال عراق کے شیعہ عالم مقتدیٰ صدر کے حامیوں کی جانب سے سویڈن میں مسلمانوں کی مقدس کتاب کو جلانے کے ایک اور مبینہ منصوبے کی توقع میں دی گئی۔ خبر رساں ادارے کے مطابق بغداد میں سیکڑوں مظاہرین نے جمعرات کو علی الصبح سویڈن کے سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور اسے آگ لگادی ، تاہم اس دوران سفارت خانے کے عملے کے کسی رکن کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ مقامی میڈیا کے مطابق سیکڑوں لوگوں نے عراقی مذہبی رہنما مقتدیٰ صدر کی اپیل پر بغداد میں سویڈن کے سفارت خانے کے باہر احتجاج کیا اور مظاہرین نے احتجاج کے دوران عراقی حکومت سے سویڈن کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا مطالبہ کیا۔ مزید برآں قرآن پاک کو جلانے کی ناپاک جسارت کی اجازت دینے پر عراق نے سویڈن کے سفیر کو ملک بدر کردیا اور ساتھ ہی سویڈن میں عراق میں موجود اپنے چارج ڈی افیئرز کو بھی واپس بلا لیا۔ عراقی سرزمین پر سویڈش ٹیلی کام کمپنی ایرکسن کا ورکنگ پرمٹ بھی معطل کردیا۔ سویڈن کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی کہ بغداد میں اس کے سفارتخانے کے تمام ملازم محفوظ ہیں اور مظاہرین کی آمد سے ایک گھنٹہ قبل سفارتخانے کے پورے عملے کو باہر نکال لیا گیا تھا۔ پاکستان نے سویڈن میں ہونے والے قرآن پاک کی بیحرمتی کے تازہ واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں مذہبی منافرت پر مبنی کارروائیاں ناجائز ہیں، عالمی قانون مذہب، عقیدے کی بنیاد پر امتیازی سلوک اور تشدد کو ممنوع قرار دیتا ہی۔ ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ اسلامو فوبیا واقعات نے 2ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، عالمی برادری اسلامو فوبیا کارروائیوں کی مذمت کرے۔ ترجمان نے کہا کہ تمام ممالک مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو الگ تھلگ کرنے کا آغاز کریں، توقع ہے سویڈش حکام اشتعال انگیزی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کریں گے۔ پاکستان نے اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرادیا۔ اسلامی دُنیا سمیت دُنیا بھر سے اس واقعے کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ سویڈش حکومت ایسے واقعات کو آزادیٔ اظہار کا چولا پہنا کر مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ آزادی اظہار رائے کے نام پر کسی بھی مذہب یا اس سے متعلق معتبر ہستی کی توہین کی کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دے سکتا۔ ہر مذہب کے ماننے والے کو دوسروں کے دین اور عقائد کا احترام لازمی کرنا چاہیے۔ ضروری ہے کہ سویڈن حکومت اپنے ملک میں اس قسم کے واقعات کو بڑھاوا دینے کے بجائے اس کی روک تھام کے لیے اقدامات یقینی بنائے۔
بجلی کی قیمت میں اضافہ
پاکستانی عوام پہلے ہی خطے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں اور وہ بھی اُنہیں بلاتعطل فراہم نہیں کی جاتی، موسم گرما میں تو ملک بھر میں بدترین لوڈشیڈنگ کے سلسلے دیکھنے میں آرہے ہیں، اب اُن پر مزید برق گراتے ہوئے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 1.90 روپے اضافہ کردیا گیا۔ اخباری اطلاع کے مطابق نیپرا نے مئی کے ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، جس کے مطابق قیمتوں میں اضافے کا اطلاق جولائی کے بلوں پر ہوگا، صارفین کو 21 ارب 10 کروڑ روپے اضافی ادا کرنا پڑیں گے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق لائف لائن اور کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہوگا۔ ادھر کراچی کے شہریوں پر بھی بجلی بم گرانے کی تیاری کرلی گئی، کے الیکٹرک نے بجلی 2 روپے 33 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی درخواست نیپرا میں جمع کرادی ہے۔ بجلی کی قیمت میں یہ اضافہ ہرگز مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عوام پہلے ہی انتہائی مہنگی بجلی استعمال کرنے کے ساتھ تاریخ کی بدترین گرانی کا سامنا کررہے ہیں۔ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا دُشوار ہے۔ پچھلے پانچ برسوں میں ہونے والی ہوش رُبا مہنگائی کے باعث بہت سے متوسط طبقے کے گھرانوں کا شمار اب غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے والوں میں ہونے لگا ہے۔ عوام کی اکثریت مشکلات اور مصائب میں گھری ہوئی ہے، وہ بنیادی ضروریات مزید مہنگے داموں استعمال کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اس تناظر میں اس فیصلے کو واپس لینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔دوسری جانب دیکھا جائے تو بھارت، چین، سری لنکا، بنگلادیش وغیرہ میں بجلی انتہائی مناسب داموں پر عوام کو مہیا کی جاتی ہے۔ اس سہولت کے باعث اُن کی جیب پر بھاری بھر کم بوجھ ہرگز نہیں پڑتا۔ اس کے برعکس پاکستان میں دو، دو کمروں کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں لاکھوں روپے بجلی کے بل بھیجنے کی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ غریبوں کی آمدن کا بڑا حصّہ ہر مہینے بجلی بل کی نذر ہوجاتا ہے۔ شہریوں کو اپنے گھروں کا معاشی نظام چلانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔ افسوس یہاں پر سستی بجلی کے ذرائع کو بڑے پیمانے پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔ بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع پر انحصار کیا گیا۔ نتیجہ آج سب کے سامنے ہے۔ حد درجہ مہنگی بجلی اور وہ بھی گرمیوں میں غائب رہتی ہے۔ اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ بجلی کی پیداوار کے سستے ذرائع (ہوا، سورج اور پانی) پر تمام تر توجہ دی جائے۔ ان سے بجلی کے حصول کے زیادہ سے زیادہ منصوبے لگائے جائیں۔ بجلی کی کشید کے مہنگے ذرائع سے یکسر جان چھڑائی جائے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے آبی ذخائر ملک بھر میں بڑے پیمانے پر قائم کیے جائیں۔ اُن میں بجلی کی سستی پیداوار کے منصوبے لگائے جائیں۔ عوام اب مزید مہنگی بجلی کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔ اسے سر سے اُتار پھینکا جائے اور سستے ذرائع سے ہی بجلی کی تمام تر پیداوار حاصل کی جائے۔ ان تمام اقدامات سے ناصرف قوم کو سستی اور وافر بجلی میسر آسکے گی بلکہ آبی قلت کا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہوسکے گا۔





