بلوچستان عسکریت پسندی کی لپیٹ میں کیوں؟

بلوچستان عسکریت پسندی کی لپیٹ میں کیوں؟
امتیاز عاصی
بلوچستان میں شورش نے اسی وقت سر اٹھا لیا تھا جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور خان آف قلات میر احمد یار خان کے مابین ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد سے روگردانی کی ابتدا ہوئی۔ وزیراعظم نواب زدہ لیاقت علی خان کے دور میں طاقت ور حلقوں نے ریاست قلات پر حملہ کیا تو خان آف قلات کے بھائی آغا عبدالکریم خان فرار ہو کر افغانستان چلا گیا جبکہ نواب نوروز خان کو گرفتار کرکے پنجاب کے ضلع چکوال کے علاقے کلر کہار کے ریسٹ ہائوس میں تیرہ سال قید رکھا گیا۔ نواب نوروز خان کا تعلق خضدار کے علاقے جھلاوان سے تھا۔ نواب نوروز کے دو بیٹوں اور پانچ دیگر ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی جس سے بلوچوں میں شورش نے مزید زور پکڑا۔ ون یونٹ کے خاتمے کے بعد وہ لوگ جو پہاڑوں پر چلے گئے تھے واپس آگئے۔ خان آف قلات کے بیٹے خان دائود کا ایک بیٹا خان سلیمان دائود ابھی تک برطانیہ میں پناہ لئے ہوئے ہے۔ بلوچستان میں شدت پسندی نے زور اس وقت پکڑا جب ملک دشمن قوتوں نے عسکریت پسندوں کی پشت پناہی شروع کی۔ بلوچستان میں آئے روز دہشت گردی کے واقعات کی بنیاد قائد اور خان آف قلات کے درمیان ہونے والا وہ معاہدہ ہے جس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا تھا۔ بلوچستان کے ذمہ دار حلقوں کے خیال میں قائد اعظم اور خان آف قلات کے درمیان ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد آج بھی ہو جائے تو بلوچستان میں اٹھنے والی شورش کا مکمل خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے، بلوچستان میں تعلیمی سہولتوں کے فقدان اور بے روز گاری کے باعث وہاں کی نوجوان نسل بیرونی طاقتوں کے ہاتھوں کھیل رہی ہے جس سے صوبے کے امن و امان کی صورت حال میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ حال ہی میں ژوب چھائونی پر عسکریت پسندوں کے حملے میں افواج پاکستان کے بہادر نوجوانوں نے ملک کے دفاع میں جام شہادت نوش کرکے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔ ملک دشمن عناصر طاقتیں دہشت گردی کی وارداتوں کے حصول کے لئے افغانستان کا راستہ استعمال کرتی ہیں۔ دونوں ملک جغرافیائی لحاظ سے بھی جڑے ہوئے ہیں ۔ دریاے ژوب پر انگریز دور میں تعمیر ہونے والا پل اور سٹرک جو وانا سے افغانستان تک چلی جاتی ہے اس امر کا ثبوت ہے کہ ملک کے وجود میں آنے سے قبل اس راستے افغانستان اور بلوچستان کے درمیان نقل و حرکت جاری تھی۔ اگر افغانستان میں پشتونوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے تو بلوچستان میں بھی پشتون بہت زیادہ آباد ہیں۔ افغانستان کے ساتھ ایک تنازعہ ڈیورنڈ لائن کا بھی ہے جسے افغانستان کی کوئی حکومت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ہمیں گزشتہ ماہ ژوب میں ہونے والی رحمن بابا ادبی ایوارڈ کی تقریب اور ژوب سے افغانستان جانے والی سڑک دیکھنے کا موقع ملا جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ افغانستان کے راستے دہشت گردوں کو بلوچستان پہنچنے میں کسی قسم کی کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ دشوار گزار پہاڑی علاقوں اور دروں کے اس علاقے میں افغانستان سے دہشت گردوں کو یہاں آنے میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں۔ پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو کیمپوں سی نکال کر بہت بڑی غلطی کی، اس کے برعکس برادر ملک ایران جہاں لاکھوں افغان مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں کوئی ایک افغان نہیں جو مہاجر کیمپ سے باہر رہ رہا ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تھوڑا عرصہ کیمپوں میں رکھنے کے بعد افغان پناہ گزینوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی دے دی گئی جس نے ہمارے خراب معاشی حالات کو مزید خراب کر دیا۔ پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کے باوجود افغان باشندے آزادانہ طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔ حال ہی میں ژوب چھائونی پر حملہ آوروں کی آخر شناخت تو ہوئی ہو گی۔ آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ہمارے ملک میں داخل ہو کر چھائونی پر حملہ کیا۔ ہماری حکومت ایسے واقعات کے بعد چند بیانات دینے کے بعد خاموشی اختیار کر لیتی ہیں حالانکہ ایسے واقعات کے بعد حکومت کو سخت سے موقف اختیار کرنا
چاہیے۔ بلوچستان جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال صوبے پر دنیا کی نظر ہے۔ سندھک ہو یا ریکوڈک یا پھر گوادر ملک دشمن طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ہیں۔ ریکوڈک جیسا عظیم منصوبہ1992 سے کھٹائی میں پڑا تھا۔ چلیں اب اس منصوبے پر کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ چین کو سندھک دے کر ہم نے گوادر بنا لی جو فوجی دور کا احسن اقدام تھا۔ سی پیک کے راستے ژوب جانے سے ہماری معلومات میں خاصا اضافہ ہوا۔ بلوچستان کے باسیوں کو ایک بڑا مسئلہ پینے کے پانی کا بھی ہے۔ صوبے کے بہت سے علاقوں میں پینے کا پانی ریل گاڑی کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے جو اس امر کا غماز ہے یہاں کے رہنے والے زندگی کی بنیادی سہولتوں سے ابھی تک محروم ہیں۔ سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو جتنے ترقیاتی کام مشرف دور میں اس صوبے میں ہوئے ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ کچھ عرصہ پہلے ہمارے اداروں نے عسکریت پسندوں کے ایک بڑے لیڈر کو پکڑ کر قومی دھارے میں لانے کی سعی کی ہے جو قابل تعریف اقدام ہے۔ بلوچستان کے سیاسی اور مذہبی رہنما باہم مل کر باغیانہ روش رکھنے والے نوجوانوں کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کریں تو اس کے مثبت نتائج نکل سکتے ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب وہاں کے رہنے والوں کو ان کے آئینی حقوق دیئے جائیں۔ قائد اور خان آف قلات کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر من و عن عمل ہو۔ گوادر جیسی بین الاقوامی بندرگاہ کے رہنے والوں کو آئینی حقوق سے محروم رکھا جائے گا تو وہاں کے رہنے والوں میں احساس محرومی پیدا ہوگا جس کا نتیجہ دہشت گردی کی صورت میں نکلتا ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک برسراقتدار آنے والی حکومتوں نے اس پسماندہ صوبے کے رہنے والوں کے حقوق کا تحفظ کرنے کی بجائے انہیں آئین میں دیئے گئے حقوق سے مسلسل محروم رکھا ہوا ہے۔ اب وقت آگیا ہے بلوچستان کے عوام کو ان کے آئینی حقوق دیئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں وہاں آئے روز دہشت گردی کے واقعات رونما ہوں۔ ہماری دعا ہے حق تعالیٰ ہمارے ملک کو قائم و دائم رکھے۔







