Column

صحت کارڈ میں شفافیت اور سڑک پر زچگی

صحت کارڈ میں شفافیت اور سڑک پر زچگی

رفیع صحرائی
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں سڑک کے کنارے گندگی کے ڈھیر کے قریب لیٹی ایک لڑکی کی چیخیں اور کراہیں سنائی دے رہی ہیں۔ وہ لڑکی ویڈیو میں واضح طور پر نظر نہیں آ رہی کیونکہ ویڈیو بنانے والا تھوڑی دور سے ویڈیو بنا رہا ہے۔ ایک عورت کیمرے اور لڑکی کے وجود کے درمیان حائل ہے۔ وہ لڑکی کے قریب بیٹھی ہے۔ ایک دوسری عورت انتہائی پریشانی اور بے چینی کے عالم میں بول رہی ہے۔ وہ غالباً اذیت میں مبتلا لڑکی کی ماں ہے۔ ایک نوجوان بھی پاس ہی بیٹھا ہے۔ ماں نظر آنے والی خاتون کہہ رہی ہے کوئی چارپائی ہی دے دو۔ پھر وہ جلدی سے کیمرے کی آنکھ سے اوجھل کیمرہ مین کے پیچھے قریبی گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے۔ اس سے پہلے کہ دروازے سے کوئی نکلتا وہ لپک کر اس کراہتی ہوئی لڑکی کے پاس آتی ہے۔ وہ ادھیڑ عمر خاتون دوپٹے سے بے نیاز ہے۔ اتنے میں غالباً گھر کا دروازہ کھلتا ہے۔ وہ عورت دروازے سے نکلنے والے سے چارپائی دینے کی درخواست کرتی ہے۔ لڑکی کی چیخیں اور کراہیں بدستور جاری ہیں۔ ویڈیو بنانے والا کسی کو فون کرتا ہے مگر وہ فون نہیں اٹھاتا۔ وہ ویڈیو میں نظر نہ آنے والے کسی آدمی سے کہتا ہے کہ قریب سے کسی دائی کا پتا کرو۔ ویڈیو میں نظر آنے والی دوسری عورت نے لیٹی ہوئی لڑکی کے آگے اپنے دوپٹے سے پردہ کر رکھا ہے۔ اتنے میں نوزائیدہ بچے کے اونچی آواز میں رونے کی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ ماں نے اپنی سڑک پر پڑی ہوئی بیٹی کی ڈلیوری کروا دی ہے۔ ماں پھر پڑوس والے گھر کی طرف بڑھتی ہے۔ لڑکی کا نوجوان بھائی ایک لفظ بھی نہیں بولتا۔ وہ خاموشی سے بہن کی ڈلیوری میں ماں کی مدد کر رہا ہے۔
محترم قارئین! ایک منٹ اور اکتیس سیکنڈ پر مشتمل یہ ویڈیو کسی فلم کا سین نہیں ہے۔ یہ ہمارے جیتے جاگتے معاشرے کی بے حسی اور غربت کی بے بسی کی ایک زندہ جھلک ہے۔ یہ واقعہ مبینہ طور پر تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کمالیہ کے باہر کھلی سڑک پر پیش آیا ہے۔ پتا چلا ہے کہ یہ خاندان تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کمالیہ میں لیڈی ڈاکٹر صاحبہ سے ملا تھا۔ غریب لوگ ہیں۔ ان کے پاس موجود کپڑوں کے شاپرز سے پتا چلتا ہے کہ وہ زچگی کی غرض سے ہی ہسپتال میں موجود تھے مگر مبینہ طور پر عین زچگی کے وقت ڈیوٹی پر موجود لیڈی ڈاکٹر نے زچگی سے انکار کر دیا۔ نہ صرف انکار کر دیا بلکہ انہیں ہسپتال سے بھی نکلوا دیا۔ ہسپتال سے نکلتے ہی حاملہ لڑکی کی حالت غیر ہو گءی اور وہ بھری پُری شاہراہ پر لیٹ گئی۔ وہیں پر جانے کس طرح ماں نے اپنی بیٹی کی زچگی کا عمل مکمل کیا۔
یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد میں بیحد پریشان ہوں۔ آنسو ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ بار بار اس لڑکی کی بے بسی اور ماں کی تڑپ و لاچاری کا خیال آتا ہے تو دل بیٹھنے لگتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا یہ ہمارے ملک میں ہو کیا رہا ہے؟۔ ہر گزرتا دن اشرافیہ اور عوام کے درمیان حائل خلیج کو مزید چوڑا کر رہا ہے۔ ایک طرف یہ عالم تھا کہ تنخواہوں میں اضافے کے حق میں پنجاب کے سرکاری ملازمین پانچ روز تک لاہور میں سڑکوں پر رہے مگر مطالبات کی منظوری کے دو دن بعد انہی سرکاری ملازمین میں موجود کالی بھیڑوں کی یہ فرعونیت سامنے آ گئی۔ یہ کیسی انسانیت ہے کہ ایک بیٹی کو اس قدر سنگ دلی کے ساتھ انتہائی نازک حالت میں ہسپتال سے باہر نکال دیا جائے۔ کیا کوئی ڈاکٹر ایسا کر سکتی ہے۔ کسی پتھر دل انسان سے بھی ایسے ظالمانہ رویے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ وہ تو پھر مسیحا تھی جس کے پاس وہ لڑکی اپنا درد لے کر پہنچی تھی۔ اس لیڈی ڈاکٹر کی ڈیوٹی ہی یہی تھی کہ مریضوں کا علاج کرے مگر اس نے نہ صرف سنگ دلی اور بے حسی کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے فرائض سے بھی غفلت برتی۔ اس واقعہ کی انکوائری ہونی چاہیے۔ اگر جرم ثابت ہو جائے تو ذمہ داران کو محکمانہ تادیبی کارروائی کرتے ہوئے ملازمت سے نکالنا ہی کافی نہیں بلکہ اقدامِ قتل کا مقدمہ بھی رجسٹرڈ ہونا چاہیے۔ مریضہ کی حالت سے آگاہی کے باوجود اسے مرنے کے لیے اسے ہسپتال سے باہر نکال دیا گیا۔
نگران حکومت نے اصلاحات کے نام پر صحت کارڈ کی سہولیات کو روک کر عوام پر بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ بظاہر تو یہ کہا گیا ہے کہ اس کے استعمال میں شفافیت لا رہے ہیں مگر اس شفافیت کے نام پر غریبوں اور مستحقین کے ساتھ بڑا کھلواڑ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں غریب صرف ٹیکس دینے کرنے کے لیے رہ گئے ہیں یا پھر ان کا مصرف یہ ہے کہ ہماری ہر حکومت انہیں گِروی رکھ کر اشرافیہ کے تعیشات کے لیے قرضہ لیتی ہے۔ غریب کے لیے صرف قدرتی ہوا ہی بچی ہے جس پر ٹیکس نہیں ہے ورنہ وہ جو کچھ کماتا ہے مختلف قسم کے ٹیکسوں کی مد میں ادا کر کے خود روکھی سوکھی کھا کر ٹھنڈا پانی پیتا ہے اور صبر شکر کر کے سو جاتا ہے۔ بندہِ مزدور کے حالات ہی تلخ نہیں ہیں، ان کی زندگی ہی اجیرن نہیں کر دی گئی ہے، ان کی تو موت بھی مشکل بنا دی گئی ہے۔ جون ایلیا تو بہت پہلے ہی فرما گئے ہیں:
صحنِ غربت میں قضا دیر سے مت آیا کر
خرچ تدفین کا لگ جاتا ہے بیماری پر
خدارا عوام کو صحت کارڈ کی سہولیات واپس کر دیجیے تا کہ نادار اور مستحقین عزت کے ساتھ اپنا علاج تو کروا سکیں ۔ زندگی اور موت اللّٰہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن مریض کی موت کی صورت میں بھی لواحقین ساری عمر کے پچھتاوے سے تو بچ جائیں گے کہ مفلسی کی وجہ سے علاج نہ کروا سکے۔ اگر بروقت علاج ہو جاتا تو شاید مریض کی جان بچ جاتی ۔ کہنے کو یہ ملک اسلامی فلاحی ریاست ہے مگر یہاں فلاح اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کی ہوتی ہے۔ غریب پر دوہری مصیبت ہے۔ اسے ٹیکسوں اور مہنگائی کی چکی میں پیسنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی قرضوں میں بھی جکڑا جا رہا ہے۔ جو قرض اس نے لیا ہی نہیں وہ بھی اس پر واجب کر دیا گیا ہے۔ آج ملک میں ریفرنڈم کروا کر دیکھ لیں۔ حکمرانوں سے مایوس 95فیصد عوام اس ملک کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک میں رہنے کو ترجیح دیں گے۔ ملکی حالات، غربت، ناانصافی اور تنگ دستی نے لوگوں کا جذبہ حب الوطنی بھی کمزور کر دیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button