
محکمہ داخلہ کی ایک خفیہ رپوورٹ میں بچوں سے زیادتی کے جرائم کی شرح میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جس میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ اس بھیانک جرم کا نشانہ بننے والے لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں پریشان کن انکشافات کیے گئے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے والے مجرموں میں سے 55 فیصد متاثرین کے پڑوسی، 32 فیصد اجنبی اور 13 فیصد رشتہ دار تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ محکمہ داخلہ نے فیلڈ اسٹاف کا استعمال کرتے ہوئے پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا علاقہ وار ڈیٹا اکٹھا کیا اور بتایا کہ راولپنڈی ریجن اور لاہور شہر میں صوبے کے دیگر ڈویژنوں کے مقابلے بچوں کے خلاف سب سے کم جرائم رپورٹ ہوئے۔
رپورٹ نے پنجاب میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم پر قابو پانے میں بنیادی رکاوٹوں کے طور پر بہت سے اہم عوامل کی نشاندہی کی ہے۔رپورٹ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی ساڑھے 5 ماہ کے دوران پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے مجموعی طور پر ایک ہزار 390 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 959 (69 فیصد) متاثرہ لڑکے اور 431 (31 فیصد) لڑکیاں تھیں۔
محکمے نے اپنی رپورٹ میں بچوں سے زیادتی کے جرائم پر قابو پانے کے لیے سفارشات بھی پیش کیں اور رپورٹ لاہور کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) اور ریجنل پولیس آفیسرز (آر پی اوز) کو بھجوادی تاکہ اس پر عمل کیا جاسکے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب میں (بچوں کے ساتھ زیادتی) کے کیس کثرت سے درج کیے جا رہے ہیں اور زیادہ تر شکایات لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں کی جانب سے رپورٹ کی جاتی ہیں۔







