Editorial

ترقی کی جانب مل کر قدم بڑھائے جائیں

ترقی کی جانب مل کر قدم بڑھائے جائیں
پاکستان برصغیر کے مسلمانوں کی طویل جدوجہد کے بعد آزاد ہوا۔ قیام کے بعد سے ہی بعض قوتیں خصوصاً بھارت اس کے خلاف برسرپیکار نظر آئیں۔ دشمنوں کو اسلام کے نام پر قائم ہونے والی یہ مملکت ایک آنکھ نہیں بھاتی، اب بھی صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے وطن عزیز تمام تر وسائل سے مالا مال خطہ ہے۔ پچھلے 75برس سے دشمنان پاکستان اسے نقصان پہنچانے کے درپے ہیں، لیکن اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود انہیں اپنے مذموم مقاصد میں کسی طور کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ اس کی وجہ پاک افواج ہیں، جو ملکی سرحدوں کی حفاظت کی ضامن ہیں۔ ہماری افواج کا ہر افسر اور اہلکار ملک کے چپے چپے کی حفاظت کی قسم اُٹھائے ہوئے ہے اور وہ اس کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دشمنوں نے ملک و قوم کو نقصان پہنچانے کے لیے تمام تر حربے آزمائے ہیں۔ بھارت کئی بار پاکستان پر حملے کی کوششیں کرچکا اور ہر بار ہی اُسے منہ کی کھانی پڑی ہے۔ اس کا کریڈٹ پاک افواج کو جاتا ہے، جنہوں نے ہر بار دشمن کے ایڈونچرز کو ناکام بنایا اور دشمن افواج کو دُم دباکر بھاگنے پر مجبور کیا۔ دشمن کی سازشوں کے باعث پاکستان 15سال تک دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا، جب ملک کے کسی گوشے میں دہشت گردی کی واردات رونما نہ ہوتی ہو۔ کتنے ہی بے گناہ انسان ان مذموم کارروائیوں میں اپنی زندگی سے محروم ہوجاتے تھے۔ عوام الناس میں خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کے نتیجے میں پاکستان بدترین بدامنی کا شکار ہوا۔ معیشت کو بُری طرح زک پہنچی، جس کا خمیازہ عرصہ دراز گزرنے کے باوجود ملک و قوم آج بھی بھگت رہے ہیں۔ معیشت بُری طرح متاثر ہوئی تھی۔ بیرونی سرمایہ کار یہاں سے فرار ہوگئے تھے۔ بدترین دہشت گردی کے باعث کوئی بین الاقوامی ٹیم کسی بھی ملکی کھیل کے میدان میں کھیلنے پر آمادہ نہ تھی۔ خوف و دہشت کے سائے تھے۔ یہ پاک افواج ہی تھیں، جنہوں نے دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کا عزم کیا۔ آپریشن ضرب عضب اور ردُالفساد کے ذریعے دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ شرپسندوں کو چُن چُن کر اُن کی کمین گاہوں میں جہنم واصل کیا گیا۔ کتنے ہی دہشت گرد گرفتار ہوئے اور جو بچ رہے، اُنہوں نے یہاں سے فرار میں ہی عافیت جانی۔ ملک میں امن و امان کی فضا بحال ہوئی۔ شہریوں نے سکون کا سانس لیا۔ دہشت گردی کے عفریت سے اُن کی جان چُھوٹی۔ ملک و قوم کے لیے افواج پاکستان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ ہمیں اپنی بہادر افواج پر فخر ہے، جو کم وسائل کے باوجود دُنیا کی بہترین افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ قابلیت کے باعث انہیں دُنیا بھر میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پاک افواج کا ہر افسر اور اہلکار عزت و احترام کے قابل ہے۔ محب وطن عوام انہیں عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ملک و قوم کی ترقی کے لیے بھی پاک افواج کا کردار بُھلایا نہیں جاسکتا۔ پاکستان قدرت کی عظیم نعمتوں سے مالا مال ملک ہے، جنہیں درست خطوط پر بروئے کار لایا جائے تو تمام تر مصائب اور مشکلات کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ پاکستان کو اللہ نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ترقی سے نہیں روک سکتی۔ اسلام آباد میں منعقدہ گرین پاکستان سیمینار میں آرمی چیف نے خطاب میں کہا کہ ہم سب یہاں پاکستان کو ایک بار پھر سرسبز کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، پاکستان کو اللہ نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، ہم باصلاحیت قوم ہیں، ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم مل کر اس کی ترقی میں حصہ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بحیثیت ادارہ مکمل جانفشانی اور قلب و روح کے ساتھ اس مرحلے کی تکمیل کے لیے ہر ممکنہ تعاون کا یقین دلاتے ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ کی رحمت سے صرف کافر مایوس ہوتے ہیں۔ آرمی چیف نے کہا کہ مسلمانوں کے لیے دو ہی حالتیں ہیں جب اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے جب خوشی ملتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے، مسلمان کے لیے ناامیدی اور مایوسی کفر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ترقی کی منازل طے کرنی ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی، ان شاء اللہ، ہمارے پاس ہر طرح کی صلاحیت موجود ہے، جو پاکستان کو عروج پر لے جاسکتی ہے۔آرمی چیف کا فرمانا بالکل بجا ہے۔ پاکستان ان شاء اللہ ضرور ترقی کرے گا اور ملک و قوم خوش حالی سے ہمکنار ہوں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان بے شمار قدرتی نعمتوں سے مالا مال ہے۔ ہر محب وطن پاکستانی ملکی ترقی میں اپنی بساط کے مطابق حصّہ ڈالے۔ ترقی کے سفر کی جانب تیزی کے ساتھ قدم بڑھائے جائیں۔ پوری قوم ملکی ترقی کے سفر کی جانب پیش قدمی کرے۔ پاک افواج پوری جانفشانی کے ساتھ ملکی ترقی میں معاونت کرے گی۔ قوم کو بھی اپنی ذمے داری پوری جانفشانی سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اور سیاست دان بھی ملکی ترقی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالیں۔ ملک عزیز وسائل سے مالا مال ہے۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ قدرت کے عظیم خزینے سرزمین پاک میں مدفن ہیں۔ انہیں درست خطوط پر بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ بیرونی قرضوں سے مستقل جان چھڑائی جائے اور اپنے وسائل پر تمام تر انحصار کیا جائے۔ درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم ضرور ملک و قوم کی ترقی اور خوش حالی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے۔
بجلی کی قیمت میں پھر اضافہ
پاکستان کے عوام خطے کے دیگر ممالک کی نسبت خاصی مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ بھارت، بنگلادیش، سری لنکا، چین اور دیگر میں بجلی خاصے سستے داموں اور وافر میسر ہے۔ وہاں کے عوام کو بجلی کی سہولت کے لیے اپنی آمدن کا انتہائی معمولی حصّہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی قوم کی بدقسمتی رہی کہ ماضی میں سستی بجلی کے حصول کے منصوبوں پر توجہ نہ دی جاسکی۔ بجلی کے مہنگے ذرائع پر انحصار کرنے کی روش پر قائم رہا گیا، جس کا تمام تر بوجھ صارفین پر پڑتا رہا اور آج بھی صورت حال اس سے یکسر مختلف نہیں ہے۔ لوگوں کی آمدن سے زائد بجلی کے ماہانہ بل اُنہیں موصول ہوتے ہیں۔ دو دو کمروں کے چھوٹے چھوٹے گھروں میں لاکھوں روپے ماہانہ بجلی بل بھیجنے کی ڈھیروں نظیریں موجود ہیں۔ غریبوں کے لیے ہولناک مہنگائی کے سبب پہلے ہی گھروں کا معاشی نظام چلانا دُشوار ہے، اُس پر بھاری بھر کم بجلی بل اُن کا بھرکس نکال دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اس پر طرّہ کہ آئے روز بجلی کی فی یونٹ قیمت میں بڑے اضافہ دیکھنے آتے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ اطلاع کے مطابق بجلی کی قیمت میں ایک روپے 24 پیسے فی یونٹ اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اضافے کا اطلاق جولائی، اگست اور ستمبر کے بلوں میں ہوگا، بجلی کی قیمت میں اضافہ سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین پر 46 ارب 76 کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا۔ واضح رہے کہ چند روز قبل نیپرا نے بجلی کی قیمت میں اضافے کی منظوری دی تھی۔آخر عوام کب تک مہنگی بجلی استعمال کرنے پر مجبور رہیں گے۔ بجلی کے حصول کے مہنگے ذرائع سے جان چھڑانے میں کیا امر مانع ہے؟ کب تک عوام پر مہنگی بجلی کا بوجھ ڈالا جاتا رہے گا۔ یہ تمام سوالات جواب کے متقاضی ہیں۔ حکومت کو اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ بجلی کے مہنگے ذرائع سے بتدریج نجات حاصل کی جائے اور توانائی کے حصول کے تمام تر سستے ذرائع (ہوا، سورج اور پانی) بروئے کار لائے جائیں۔ اس حوالے سے بلاکسی تاخیر کے منصوبے بنائے جائیں اور فوری اُن پر عمل درآمد کیا جائے۔ چھوٹے ہوں یا بڑے آبی ذخائر کی تعمیر میں ہرگز تاخیر نہ کی جائے۔ اس حوالے سے سارے منصوبے جلد از جلد پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوششیں کی جائیں۔ یوں ناصرف آبی قلت کے دیرینہ مسئلے سے نجات ملے گی بلکہ وافر توانائی کا حصول بھی ممکن ہوسکے گا۔ گو سستی بجلی کے منصوبے ضرور لگائے گئے ہیں، لیکن وہ آبادی کے تناسب سے انتہائی کم ہیں۔ انہیں آبادی کے تناسب سے قائم کرنے کی ضرورت ہے بلکہ اُس سے بھی زیادہ ہونا چاہیے، تاکہ ہم ناصرف ملکی توانائی کی ضروریات پوری کرسکیں بلکہ بجلی برآمد کرنے کے قابل بھی ہوسکیں۔ اس وقت گرمی میں بجلی کا شارٹ فال بڑھا ہوا دِکھائی دے رہا ہے۔ بجلی کی پیداوار کو کھپت کے متوازی ہر صورت لایا جائے۔ اگر یہ سستی بجلی ہو تو سونے پر سہاگہ ایسا امر ثابت ہوگا اور عوام کو سستی بجلی کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔

جواب دیں

Back to top button