Editorial

یومِ تقدیس قرآن منانے کا صائب فیصلہ

عیدالاضحی کے موقع پر سویڈن میں ایک بدبخت نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی اور اسے نذرآتش کیا۔ مسلمانوں کو حضورؐ، قرآن پاک اور دینی شعائر کی توہین کسی طور برداشت نہیں۔ قرآن ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور مسلمانوں کے لیے سب سے مقدس ترین کتاب ہے۔ اس کی بے حرمتی کرکے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے۔ اس واقعے پر پوری دُنیا کے مسلمانوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اسلامی ممالک میں اس حوالے سے بھرپور احتجاج جاری ہیں جب کہ عالم اسلام نے اس کی بھرپور مذمت کی ہے۔ پاکستان نے بھی اس حوالے سے ہر فورم پر آواز اُٹھائی ہے۔ کئی اسلامی ملکوں نے اپنے ہاں متعین سویڈش سفرا کو بلاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھی اس واقعے کی مذمت کی تھی۔ اتوار کو ہونے والے او آئی سی اجلاس میں دُنیا پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اس قسم کے مذموم واقعات کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اسلامو فوبیا کے بڑھتے رجحان کے تدارک کے لیے اقدامات یقینی بنائیں۔ بدقسمتی سے پچھلے چند سال سے مغربی ممالک میں نبی محترمؐ کی شان میں گستاخی اور قرآن پاک کی بے حرمتی سمیت دیگر مذموم واقعات تواتر سے پیش آرہے ہیں۔ ان واقعات میں کسی طور کمی نہیں آسکی ہے۔ اس سے سوا ارب مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی ہے۔ ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔ یہ امر ہر لحاظ سے قابل مذمت ہے۔ مسلمانوں نے کبھی کسی بھی مذہب کی معتبر ہستی یا کسی اور کی بے توقیری نہیں کی۔ اسلام امن پسند اور رواداری کی تعلیم کا حامل مذہب ہے۔ اس کے خلاف ایسی مذموم کوششوں کا تواتر کے ساتھ سامنے آنا یقیناً لمحۂ فکریہ ہونے کے ساتھ تشویش ناک امر ہے۔ یورپی یونین نے بھی اس واقعے کی بھرپور مذمت کی ہے جب کہ پوپ فرانسس بھی اس کے خلاف لب کُشائی کرچکے ہیں۔ وطن عزیز کے چپے چپے میں مختلف تنظیموں کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے اس واقعے کے خلاف احتجاج کے سلسلے دراز نظر آتے ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی اس حوالے سے بڑا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے خلاف جمعہ7 جولائی کو یوم تقدیس قرآن منانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جمعہ 7جولائی کو سویڈن میں پیش آنے والے واقعے کے خلاف ملک گیر احتجاج ہوگا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے تمام جماعتوں سمیت پوری قوم سے احتجاج میں شریک ہونے کی اپیل کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ پوری قوم ایک زبان ہوکر شیطانی ذہنوں کو پیغام دے گی۔ جمعہ کو ملک بھر میں سویڈن واقعہ کی مذمت میں احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں۔ انہوں نے آج ( جمعرات) پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا اور ہدایت کی کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سویڈن واقعے پر قومی لائحہ عمل بنایا جائے۔ پارلیمنٹ کے فورم سے قوم کے جذبات و احساسات کی بھرپور ترجمانی کی جائے۔ وزیراعظم نے مزید ہدایت کی کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مشترکہ قرارداد منظور کی جائے، وزیراعظم نے مسلم لیگ ن کو جمعہ کو یوم تقدیس قرآن میں بھرپور شرکت کی ہدایت کی۔ انہوں نے کہا کہ مذہب، مقدس ہستیوں اور عقائد کو نشانہ بنانے والے متشدد ذہن دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہیں۔ عالمی سطح پر بین المذاہب ہم آہنگی پر یقین رکھنے والی قوتیں ایسے رجحانات اور واقعات کے تدارک کیلئے کام کریں۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ قرآن کریم کی عزت و حرمت ہمارے ایمان کا حصہ ہے، اس کیلئے ہم سب ایک ہیں، گمراہ ذہن اسلاموفوبیا کے منفی رجحان کو پھیلاکر مذموم ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ ادھر مجلسِ شوریٰ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کا شیڈول بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اجلاس 10جولائی شام 5بجے کے بجائے آج ( جمعرات) سہ پہر 3بجے پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوگا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے اجلاس میں تبدیلی جوائنٹ سیٹنگ رولز 1973کے تحت تفویض شدہ اختیارات کو بروئے کار لاتے ہوئے کی ہے، اسمبلی سیکریٹریٹ کی جانب سے مجلس شوریٰ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تبدیلی کا سرکلر جاری کر دیا گیا ہے۔ دوسری جانب جماعت اسلامی اور تحریک لبیک پاکستان نے سویڈن میں قرآن کریم کی بے حرمتی کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے یومِ تقدیس قرآن منانے کا فیصلہ صائب اور بروقت ہے۔ اس کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ اس موقع پر تمام دینی و سیاسی جماعتیں اور عوام اپنا بھرپور احتجاج دُنیا کے سامنے ریکارڈ کرائیں۔ ریلیاں نکالی جائیں اور جلسے جلوس منعقد کیے جائیں۔ دُنیا کے دیگر اسلامی ممالک کو بھی پاکستان کی تقلید کرتے ہوئے اپنے ہاں یوم تقدیس قرآن پاک منانے کی ضرورت ہے اور وہ بھی دُنیا کے سامنے اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرا کے اُنہیں ایسی مذموم کارروائیوں کی روک تھام کے لیے مجبور کریں۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے ایسا کرنا ازحد ضروری ہے، ورنہ اس قسم کے اوامر خلیج کو وسعت دینے کا باعث بن سکتے ہیں۔ دوسری جانب ہم سمجھتے ہیں کہ حضور نبی کریمؐ، قرآن کریم اور شعائر اسلام کی توہین کا سلسلہ خاصا دراز ہوچکا ہے۔ اس کے مکمل انقطاع اور اختتام کے لیے مسلمانوں کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی ادارے اور حقوق انسانی کے چیمپئن ممالک بھی ایسی مذموم کارروائیوں کو آزادی اظہار رائے کے زمرے میں ڈالنے سے گریز کرتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ اس واقعے کے حوالے سے سویڈن حکومت کا کردار خاصا افسوس ناک قرار پاتا ہے۔ سویڈن کو اپنے ہاں ایسے مذموم واقعات کی روک تھام کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
تھر میں غذائی قلت سے 7بچے جاں بحق
پاکستان دُنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہے۔ اس ملک کا ایک خطہ ایسا بھی ہے، جہاں ہر سال غذائی قلت کئی معصوم بچوں کی جان لے لیتی ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومت اس صورت حال کے تدارک کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ لوگ اس دور جدید میں بھی اکثر سہولتوں سے بے بہرہ ہیں۔ ماضی کے دریچوں میں اگر جھانک کر دیکھا جائے تو 2014ء کا سال تو تھر کے لیے بدقسمت ترین ثابت ہوا تھا، جب بڑے پیمانے پر خشک سالی اور غذائی قلت کے باعث معصوم بچے اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے تھے۔ کتنی ہی مائوں کی گودیں اُجڑ گئی تھیں۔ تھر کے باشندے صحت کی سہولت سے یکسر محروم ہیں۔ مٹھی میں صحت مراکز ہیں، جہاں ہر ایک کے لیے رسائی چنداں آسان نہیں۔ انسان اور جانور وہاں غذائی قلت کے باعث برسہا برس سے مرتے چلے آئے ہیں۔ تھر میں کتنی ہی مائیں دورانِ زچگی زندگی سے محروم ہوجاتی ہیں۔ اگر وہ جی بھی جائیں تو ایسے کمزور، نحیف و نزار بچوں کو جنم دیتی ہیں جو جلد ہی اس فانی دُنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ اس بدنصیب خطے کی قسمت بدلنے کے لیے کبھی بھی سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں۔ تھری باشندوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ صورت حال مزید سنگین شکل اختیار کر رہی ہے۔ اس حوالے سے تازہ اطلاع کے مطابق سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ رُک نہیں سکا، غذائی قلت اور مختلف بیماریوں میں مبتلا مزید 7بچے دم توڑ گئے۔ محکمہ صحت تھرپارکر نے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ 24گھنٹے میں سول اسپتال مٹھی میں غذائی قلت اور مختلف بیماریوں میں مبتلا 7بچے انتقال کر گئے۔ محکمہ صحت کے مطابق جاں بحق ہونے والے بچوں میں نومولود سے لے کر 5سال تک کے بچے شامل ہیں۔ مرنے والے بچوں کا تعلق تھرپارکر کے دیہی علاقوں سے ہے، رواں سال جاں بحق بچوں کی تعداد 435ہوگئی ہے۔ سات بچوں کی اموات بلاشبہ دل چیر دینے والے واقعات ہیں۔ ایک سال میں تھر میں 435بچے اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت سے دست بستہ گزارش ہے کہ سندھ کے اس بدقسمت ضلع پر خصوصی توجہ دی جائے۔ یہاں صحت کی بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں۔ غذائی قلت کے مسئلے کے حل کے لیے راست اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ مائوں اور بچوں کی صحت کے تحفظ کے لیے کوششیں کی جائیں۔ تھرپارکر کو دور جدید کی سہولتوں سے آراستہ کیا جائے۔ یقیناً درست سمت میں کیے گئے فیصلے تھر کے لیے خوش قسمتی کی جانب بڑھتے قدم ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button