
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف تقریباً تین سال لندن میں گزارنے کے بعد سیاسی طور پر متحرک ہوئے ہیں اور حال ہی میں انھوں نے متحدہ عرب امارات میں نہ صرف اتحادی سیاسی جماعتوں بلکہ اپنی جماعت کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں اور اجلاسوں کی صدارت کی ہے۔
ان اجلاسوں کے بعد مسلم لیگ ن یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ نواز شریف جلد وطن واپس آ کر نہ صرف ملکی سیاست میں متحرک ہوں گے بلکہ وہ چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بھی بنیں گے۔
لیکن اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ قائد ن لیگ میاں نواز شریف کو وطن واپسی پر کن قانونی مراحل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ؟
ہم سے گفتگو میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ ’یہ تو طے ہے کہ نواز شریف نے انتخابی مہم شروع کرنے کے لیے پاکستان آنا ہے اور اگر وہ انتخابی مہم نہیں چلاتے تو ن لیگ کے لیے الیکشن لڑنا ناممکن ہے۔ اب ان کی واپسی کے لیے جو قانونی تقاضے ہیں ان کو دیکھ رہے ہیں اور کوشش ہو گی کہ اس حوالے سے تمام رکاوٹوں کو قانونی طریقے سے دور کیا جائے۔‘
سینیئر وکیل حافظ احسان کھوکھر کے مطابق ’اگر نواز شریف ابھی وطن واپس آتے ہیں تو ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے اگر وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں تو ان کے وکلا ہائی کورٹ میں درخواست دائر کر سکتے ہیں کہ نواز شریف وطن واپس آکر اپنے مقدمات کا سامنا کرنا چاہتے ہیں اور وہ سرنڈر کرنا چاہتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواست اس لیے نہیں دی جا سکتی کہ ان کا سٹیٹس صرف اشتہاری ملزم کا نہیں بلکہ مجرم کا ہے۔ اس لیے ان کے پاس سرنڈر کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے۔‘
نا اہلی کیسے ختم ہو گی؟
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کے مطابق ’نواز شریف کی نااہلی کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ نے جس قانون سازی پر حکم امتناع دے رکھا ہے وہ ختم ہونے کے بعد نااہلی کی سزا ختم کرنے کے لیے درخواست دائر کی جائے گی۔
اسی طرح وفاقی حکومت نے قانون سازی کے ذریعے نا اہلی کی سزا پانچ سال تک محدود رکھنے کے حوالے سے قانون سازی بھی کر لی ہے۔
نااہلی کے خاتمے کے حوالے سے ایڈووکیٹ حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ ’نواز شریف کیس میں کافی نکات کا حل ہونا باقی ہے۔ ان کی پہلی نااہلی سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے ہوئی۔ جس کے خلاف نظرثانی اپیل کا حق وہ استعمال کر چکے ہیں۔ پارٹی سربراہ والے کیس میں وہ اپیل کر سکتے ہیں جبکہ اب جو قانون سازی ہوئی جس میں 62 ون ایف کو ریگولیٹ کیا گیا ہے تو طے ہونا ہے کہ کیا یہ قانون نواز شریف کے لیے لاگو ہو سکتا ہے یا نہیں۔ اس بارے میں حتمی فیصلہ عدالتوں میں ہی ہو گا۔‘
حکومتی ٹیم کے مطابق اگر الیکشن کے لیے 90 روز کا وقت ہوا تو نواز شریف کی واپسی سے پہلے شروع کی گئی قانونی کارروائی کے ذریعے انتخابی شیڈول آنے سے پہلے نواز شریف کی نہ صرف سزا معطلی بلکہ نااہلی بھی ختم کروانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ جس کے بعد نواز شریف انتخابی میدان میں ہوں گے۔







