Editorial

معیشت کے لیے امید کی نئی کرن

پچھلے 5سال ملک و قوم کے لیے کسی کٹھن امتحان سے کم قرار نہیں دئیے جاسکتے۔ معیشت کا پہیہ جام ہوا۔ سرمایہ کاروں نے بیرونی دُنیا کا رُخ کیا کہ اُن کے لیے یہاں اپنے کاروباروں کو جاری رکھنا انتہائی مشکل تھا۔ اسی طرح بہت سی کمپنیوں اور فیکٹریوں نے اپنے آپریشنز بند کیے۔ بے روزگاری کا بدترین طوفان آیا، جو لاکھوں لوگوں کے روزگار کے چراغ گل کر گیا۔ چھوٹے کاروباری لوگوں کے برسہا برس سے جمے جمائے کاروبار تباہ ہوگئے۔ مہنگائی کا ایسا بدترین سیلاب آیا کہ غریبوں کے آشیانے بہا لے گیا۔ بنیادی ضروریات ( پٹرولیم مصنوعات، گیس، بجلی) کے نرخ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دئیے گئے۔ اشیاء خورونوش کے دام بھی آسمان سے باتیں کرتے دِکھائی دیے۔ پاکستانی روپیہ تاریخ کی بدترین بے وقعتی، بے توقیری کا شکار ہوا۔ امریکی ڈالر اُسے ہر محاذ پر مات دیتا نظر آیا۔ اس بدمست ہاتھی کو قابو کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس میں عالمی وبا کرونا وائرس کے بھی کچھ بداثرات تھے، تاہم سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں کا زیادہ عمل دخل نظر آتا تھا، جس نے ملک و قوم کے لیے اپنے دورِ اقتدار کو ڈرائونے خواب کی مانند بنائے رکھا۔ معیشت پر پے درپے وار کیے جاتے رہے۔ اسے تجربات کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ ترقی کے راستے مسدود کیے گئے۔ سی پیک ایسے گیم چینجر منصوبے پر کام کی رفتار انتہائی سست یا بند کردی گئی، بیرونی دُنیا سے تعلقات کو خراب کرنے کے حربے آزمائے گئے۔ چین اور سعودی عرب ایسے گہرے دوست ممالک کو ناراض کیا گیا۔ معیشت کے لیے بھرپور طور پر بارودی سرنگیں کھودی گئیں۔ ملک پر قرضوں کے بار میں ہوش رُبا حد تک اضافہ کیا گیا۔ پچھلے پانچ سال مایوسیوں، ناکامیوں سے عبارت رہے۔ ملک کے سر پر ڈیفالٹ کی تلوار لٹکنے لگی تھی۔ سابق حکومت کے رخصت ہونے کے بعد موجودہ اتحادی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی معیشت کی بحالی کے لیے بڑے اقدامات کرنے شروع کیے۔ سفارتی تعلقات کی بحالی میں تیزی دِکھائی گئی۔ معیشت کو پھر سے استحکام عطا کرنے اور پیروں پر کھڑا کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔ ڈیفالٹ کے خطرے کو ٹالا گیا۔ گو اس دوران کچھ مشکل فیصلے بھی کیے گئے، لیکن مجموعی طور پر ملک و قوم کی بہتری کے لیے اقدامات کی نظیریں نظر آتی ہیں۔ ملک میں سستے تیل اور گیس کی آمد کی راہ ہموار کی گئی۔ روس سے سستے خام تیل کا معاہدہ ہوا۔ اس حوالے سے روس سے دو خام تیل سے لدے بحری جہاز پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ اسی طرح ایل پی جی گیس درآمد کرنے کے لیے بھی روس، ترکمانستان و دیگر سے معاہدے کیے گئے۔ پچھلے ایک مہینے کے دوران ایل پی جی گیس کے نرخوں میں بڑی کمی واقع ہوچکی ہے۔ ان شاء اË کچھ دنوں بعد روسی تیل کی تسلسل کے ساتھ فراہمی کے سبب پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بھی بڑی کمی آئے گی۔ آئی ایم ایف سے ڈیل بھی ہوگئی ہے۔ اس معاہدے کے ہوتے ہی اس کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ڈالر کے نرخ میں بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی طرح سونے کے دام بھی گر گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔اسی ضمن میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ امید کا نیا سورج طلوع اور ملک ترقی کے راستے پر گامزن ہو چکا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکس چینج میں 2231پوائنٹس کے غیر معمولی اضافے کے ساتھ کاروبار کے آغاز اور نیا ریکارڈ قائم ہونے پر قوم اور کاروباری برادری کو مبارک باد دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہماری مسلسل محنت اور درست پالیسیوں کے نتیجے میں معاشی بحالی کے آثار نمایاں ہونا شروع ہوگئے ہیں، اپنے بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ الحمدللہ! ملک دوبارہ ترقی کے راستے پر گامزن ہوچکا ہے۔ شدید مایوسیوں کے بعد امید کا نیا سورج طلوع ہورہا ہے۔ قوم کو مبارک ہو، شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدے اور 3ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے نتیجے میں سرمایہ کاروں اور کاروباری برادری کا اعتماد تیزی سے بحال ہورہا ہے۔ خدا کرے کہ پاکستان کی ترقی کا سفر یوں ہی جاری رہے۔ پاکستان کی ترقی کے بیج جڑ پکڑنا شروع ہوگئے ہیں، پُرخلوص محنت، دیانت داری اور سچائی ثمر لارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح 2013 سے 2018 کے درمیان پاکستان کو توانائی کے بحران، دہشت گردی اور دیگر مسائل سے نجات دلائی تھی، معاشی ترقی لائے تھے، ایک بار پھر اسی جذبے سے پاکستان کو ترقی کی راہ پر لارہے ہیں۔ قومی ترقی اور معاشی استحکام کے سفر کو اسی سمت اور اسی جذبے و محنت سے جاری رکھنا ہوگا، وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جس طرح سی پیک کا آغاز کیا، معیشت بحال کی، مہنگائی 4فیصد اور کھانے پینے کی اشیا کی شرح 2فیصد پر لائے تھے، ترقی کی شرح 6.1فیصد اور پالیسی ریٹ ساڑھے 6فیصد پر تھا، اب دوبارہ ترقی کے اسی سفر کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ اب زراعت، آئی ٹی، صنعت سمیت دیگر تمام شعبوں میں ترقی کا سفر تیز ہوگا۔ ان شاء اللہ۔ پھر عوام کو مہنگائی سے نجات دلائیں گے، نوجوانوں کو روزگار، کاروبار اور معاشی خودمختاری سے ہم کنار کریں گے۔ اس میں شبہ نہیں کہ نیک نیتی، خلوص اور عوامی فلاح و بہبود کی سوچ کے ساتھ کیے گئے کاموں کے اچھے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت بھی معیشت کی بحالی کے سفر پر پوری تندہی اور جانفشانی سے گامزن ہے اور معیشت کی بہتری کے آثار کا کریڈٹ اگر اُسے نہ دیا جائے تو یہ بڑی ناانصافی کہلائے گی۔ موجودہ اتحادی حکومت ہر لحاظ سے قابل تعریف ہے۔ اُس نے سنجیدہ کوششیں کرکے اُمید کے دیے کو روشن کردیا ہے۔ بہتری کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ کچھ ہی عرصے میں حالات پھر سے ملک و قوم کے موافق ہوجائیں گے اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پر تیزی کے ساتھ گامزن ہوجائے گا۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں ہر پاکستانی کو اپنے حصّے کا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو ابھی بھی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوا ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔ خود انحصاری کی پالیسی اختیار کی جاءے اور قرضوں کے بار سے مستقل نجات کی سبیل کی جائے۔ وزیراعظم شہباز شریف اس ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار کر بھی چکے ہیں۔ ملک عزیز قدرت کی عظیم نعمتوں سے مالا مال ہے۔ اُن وسائل کو اگر صحیح خطوط پر بروئے کار لایا جائے تو حالات کچھ ہی عرصے میں مزید بہتر ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب شاہانہ اخراجات سے مستقل نجات حاصل کی جائے اور کفایت شعاری کی راہ اختیار کی جائے۔ ملک و قوم کو خوش حالی اور ترقی سے ہمکنار کرنے کے لیے مزید بڑے فیصلے کئے جائیں تو یقیناً صورت حال جلد بہتر رُخ اختیار کر لے گی۔
آٹے کی قیمت مناسب سطح پرلائی جائے
گندم اور آٹے کے کاروبار سے وابستہ افراد کی جانب سے آئندہ مہینوں میں ملک میں آٹے اور گندم کی بدترین قلت کے اندیشے ظاہر کیے جارہے ہیں۔ پاکستان بھر میں اس وقت آٹے کی قیمت آسمان پر پہنچی ہوئی ہے۔ کچھ مہینوں قبل آٹے کے نرخ میں جو اضافہ ہوا، اُس میں کمی دیکھنے میں نہیں آئی، حالانکہ پاکستان میں گندم وافر مقدار میں پیدا ہوتی ہے اور ابھی گندم کی نئی فصل بھی مارکیٹ میں آچکی ہے، اس کے باوجود مقرر کردہ خریداری کے سرکاری اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے ہیں۔ اس وجہ سے آئندہ مہینوں میں آٹے کا بحران سنگین شکل اختیار کرنے کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں۔ اس وقت کراچی میں 135سے 140روپے کلو آٹا فروخت ہورہا ہے۔ سندھ کے دوسرے شہروں میں بھی یہی حال ہے۔ اسی طرح پنجاب کے مختلف شہروں میں بھی آٹا 130روپے یا اس سے زائد قیمت پر فروخت کرنے کی اطلاعات ہیں۔ صوبۂ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں بھی آٹا 135روپے یا اس سے زائد پر فروخت کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کی جانب سے آٹے کی قیمت میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ غریبوں کے منہ سے روٹی کا نوالہ بھی چھیننے کی مذموم کوششیں کی جارہی ہیں۔ غریب عوام مہنگا آٹا استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ آٹے کی قیمت میں کمی لانے کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کا فقدان دِکھائی دیتا ہے۔ یہ امر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحۂ فکریہ بھی ہے۔اس ضمن میں ’’جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق لاہور کی اوپن مارکیٹ میں آٹے کی قیمتیں بڑھنے کا سلسلہ جاری ہے جب کہ یوٹیلٹی اسٹورز پر سستے آٹے کی بدترین قلت برقرار ہے۔ لاہور میں 20کلوگرام آٹے کا تھیلا 50روپے بڑھ کر 2650روپے کا ہوگیا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں اتنا مہنگا آٹا خریدنا استطاعت سے باہر ہوگیا۔ دوسری جانب یوٹیلٹی اسٹورز پر سستے آٹے کی قلت سے عوام پریشان ہیں، اسٹورز پر آٹے کی مقدار نہایت محدود آرہی ہے جب کہ صارفین کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی، بالخصوص کچی آبادیوں اور کالونیوں میں واقع یوٹیلٹی اسٹورز پر سستا آٹا سرے سے ہی غائب ہے۔ شہریوں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے معاملے کی سنگینی کا فوری نوٹس لینے اور یوٹیلٹی اسٹورز پر سستا آٹا فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو آٹے کی قیمت مناسب سطح پر لانے کے لیے راست اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے موثر حکمت عملی ترتیب دی جائے۔ عوام کی جیبوں پر نقب لگانی والے عناصر آٹے کی قیمت میں من مانا اضافہ کرکے اربوں روپے ناجائز منافع کماکر اپنی تجوریاں دہانوں تک بھر چکے ہیں۔ ایسے عناصر اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے۔ آٹے کے نرخ میں معقول حد تک کمی لائی جائے۔ ملک بھر میں ذخیرہ اندوزوں، منافع خوروں اور گراں فروشوں کے خلاف کارروائیاں عمل میں لائی جائیں اور ان کارروائیوں کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ سزائیں دی جائیں اور بھاری بھر کم جرمانے عائد کیے جائیں۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔

جواب دیں

Back to top button