تازہ ترینخبریںسپورٹس

نانگا پربت پر 7000 میٹر سے بلند مقام پر پھنسے ہوئے پاکستانی کوہ پیما ڈاکٹر آصف کون ہیں؟

خونی پہاڑ کے نام سے مشہور نانگا پربت کے کیمپ فور میں سات ہزار میٹر سے بلند مقام پر پھنسے پاکستانی ہوئے کوہ پیما ڈاکٹر آصف بھٹی منگل کے روز صبح کے وقت دوسرے کوہ پیماؤں کی مدد سے نیچے اترنے کی کوشش شروع کریں گے۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق ڈاکٹر آصف بھٹی نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش میں کیمپ فور پر سنو بلائینڈنیس کا شکار ہو چکے ہیں جس کے بعد ان کے لیے آنکھیں کھولنا ممکن نہیں رہا ہے۔

الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق ایک دوسرے واقعے میں پولش کوہ پیما پاول ٹو ماسز الٹیٹیوٹ سیکنیس یا اونچائی کی بیماری کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے تقریباً 45 سالہ آصف بھٹی پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں۔ وہ گذشتہ کئی سالوں سے اسلام آباد کی نجی یونیورسٹی سے منسلک ہیں اور مہم جوئی کے شوقین ہیں۔

الپائن کلب آف پاکستان کے مطابق اس سے قبل انھوں نے براڈ پیک کی آٹھ ہزار میٹر سے زائد چوٹی بھی سر کرنے کی کوشش کی تھی مگر انھیں اس میں کامیابی نہیں ملی تھی جبکہ اس سے پہلے یہ سات ہزار سے بلند سپانٹک کی چوٹی کو سر کرنے کے علاوہ پانچ اور چھ ہزار میٹر کے کئی پہاڑ سر کر چکے ہیں۔

الپائن کلب آف پاکستان کے سیکرٹری کرار حیدری کے مطابق ڈاکٹر آصف بھٹی کو مدد فراہم کرنے کے لیے عسکری ایوسی ایشن سے مدد طلب کر لی گئی ہے اور اس وقت عسکری ایوی سی ایشن منصوبہ بنا رہی ہے کہ وہ کس طرح ڈاکٹر آصف بھٹی کو مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

معلومات کے مطابق اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ موجود موسمی حالات میں کیا ہیلی کاپیٹر کو سات ہزار سے زائد میٹر کی بلندی پر اڑایا جا سکتا ہے یا نہیں اور ڈاکٹر آصف بھٹی کو کس طرح سے ہیلی کاپٹر پر لفٹ کا جا سکتا ہے۔

اس کے لیے مختلف منصوبوں پر غور کیا جا رہا ہے جس پر منگل کے روز عمل در آمد ہو سکتا ہے۔

قراقرم ایکپیٹیشن سے تعلق رکھنے والے اور ممتاز کوہ پیما محبوب علی کے مطابق ’اب تک مجھے ملنے والی اطلاعات کے مطابق آصف بھٹی اس وقت جسمانی طور پر بالکل ٹھیک ہیں اور ان کا حوصلہ بھی بلند ہے۔ ان کی مدد کے لیے بیس کیمپ میں سے ایک ٹیم منگل کے روز کیمپ فور کی طرف روانہ ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میری اطلاعات کے مطابق آصف بھٹی کیمپ فور پر موجود دوسرے کوہ پیماؤں کی مدد سے منگل کے روز نیچے اترنے کی کوشش کریں گے۔ یہ ہی سب سے بہتر طریقہ ہے انھیں اس موقع پر ہمت کرنا ہو گی کیونکہ اس وقت وہ سات ہزار میٹر سے زیادہ کی اونچائی پر موجود ہیں۔‘

محبوب علی کے مطابق ’اگر وہ اس طرح کسی بھی طریقے سے ساتھی کوہ پیماؤں کی مدد سے کیمپ ٹو تک پہنچ جائیں تو وہاں سے انھیں ہیلی کاپیٹر کی مدد مل سکتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کیمپ فور جو کہ سات ہزار میٹر سے زائد کی بلندی پر واقع ہے اور کیمپ تھری جو کہ چھ ہزار میٹر سے زائد بلندی پر ہے وہاں پر ہیلی کاپیٹر کی پرواز آسان نہیں ہوتی اور اس میں خطرات بھی موجود ہوتے ہیں۔

محبوب علی کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ ’آنے والے ایک دو دونوں میں نانگا پربت پر برفباری اور تیز ہواؤں کی پیش گوئی بھی موجود ہے۔‘

کرار حیدری کے مطابق ’اس وقت کوشش کی جا رہی ہے اور ایک منصوبہ بنایا جا رہا ہے کہ کسی طرح ڈاکٹر آصف بھٹی کواس مقام پر لے آیا جائے جہاں پر آسانی سے ان کو ہیلی کاپیٹر کے ذریعے سے لفٹ کیا جا سکے۔ اس کے لیے بیس کیمپ سے کچھ کوہ پیما بھی روانہ ہوں گے اور اس کے علاوہ نانگا پربت کو سر کرنے والے کوہ پیما جو کہ اس وقت کیمپ فور میں ہیں وہ بھی مدد فراہم کریں گے۔‘

محبوب علی کے مطابق نانگا پربت جیسے بلند پہاڑوں پر سنو بلائینڈنیس کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔ اس خطرے سے بچاؤ کے لیے خصوصی قسم کے بہت اچھے چشمے استعمال کیے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’برف پر جو روشنی اور دھوپ پڑتی ہے اس میں چمک بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس سے بہت تیز ری فلیشکن یا عکس پیدا ہوتا ہے جو آنکھوں کو خراب کرتا ہے۔ اس کی دوسری وجہ تیز ہوا کا چلنا ہوتا ہے جو آنکھوں کے اوپری حصے کو متاثر کرتا ہے۔ اس سے آنکھوں میں جلن پیدا ہوتی ہے اور آنکھیں کھولنا ممکن نہیں رہتا ہے۔‘

محبوب علی کے مطابق ’وقتی طور پر اس سے مسائل ہوتے ہیں بالخصوص اتنی بلندی پر تو بہت زیادہ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب اتنی بلندی پر آنکھیں کھولنا ممکن ہی نہ ہو تو یہ خطرے کی بات ہوتی ہے۔‘

ڈاکٹروں کے مطابق سنو بلائینڈنیس فوٹو کیریٹائٹسائر کی ایک شکل ہے جو برف اور برف سے منعکس یا ری فلیکشن سے ہونے والی الٹر اوائلٹ شعاعوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ شمالی اور جنوبی قطب کے علاقوں میں یہ بیماری عام ہے۔ یہ مکمل طور پر قابل علاج ہے اور اکثر وقتی ہوتی ہے۔

یاد رہے نانگا پربت دنیا کی نویں بلند ترین چوٹی ہے مگر اس کا شمار دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں ہوتا ہے۔ اس چوٹی کو فتح کرنے کی خواہش میں اب تک 86 کوہ پیما زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس پر ہلاکتوں کی شرح 21 فیصد ہے۔

جواب دیں

Back to top button