
فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سوسائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 6 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
6 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔
سماعت کے آغاز پر صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری روسٹروم پر آ گئے اور عدالت سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ میں نے بھی اس کیس میں درخواست دائر کی تھی،اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار بھی اس کیس میں فریق بن رہی ہے، اچھے دلائل کو ویلکم کریں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ آج اس وقت درخواست دائر کر رہے ہیں؟ کیا آپ کی درخواست کو نمبر لگ گیا ہے؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ ابھی افس میں دائر ہو گئی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب درخواست کو نمبر لگے گا تب دیکھ لیں گے۔
اپنی بات پر قائم ہوں، 102 لوگوں کا ٹرائل نہیں ہو رہا، اٹارنی جنرل
دریں اثنا چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سویلین کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، کل ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم 102 لوگوں کا ٹرائل کر رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں اپنی کل کی بات پر قائم ہوں کہ 102 لوگوں کا ٹرائل نہیں ہو رہا، وزارتِ دفاع کے لوگ آئے ہیں، میری بات کی تائید کریں گے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ہمیں اس بات پر کلیئر ہونے کی ضرورت ہے کہ ملزمان کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 2 (ڈی) (ون) کے تحت تحویل میں لیا گیا یا 2 (ڈی)(2) کے تحت؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ابتدائی طور پر 2 (ڈی) (2) کے تحت ملزمان کو حراست میں لیا لیکن 2 (ڈی) (ون) کے نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملزمان کے حوالے سے جو الزامات سامنے آنے ہیں ان کا تعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے نہیں ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ عدالتی نظائر کی رو سے کیا معیار مقرر کیا گیا ہے کہ کس کو عام عدالت اور کس کو فوجی عدالت میں ٹرائی کرنا ہے ؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لیاقت حسین کیس میں واضح کیا گیا ہے کہ ہر کیس ملٹری کورٹ میں ٹرائی نہیں ہو سکتا بلکہ کیس کا تعلق آرمی ایکٹ کے ساتھ ثابت ہونا چاہیے۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا، اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اندرونی تعلق بارے جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، کیا اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے؟ اٹارنی جنرل نئے جواب دیا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ فوج کے اندر سے معاونت کے الزام کی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق، الگ وجوہات تھیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ایف بی ایل ای کیس کہتا ہے کہ کسی سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے، یہ کیس سویلین کے اندر تعلق کی بات کرتا ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے مطابق یہ کون سا تعلق ہو گا،جس پر ٹرائل ہو گا۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو گا وہ آئینی ترمیم سے ہی ہو سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہوا میں بات کر رہے ہیں، 2 (ڈی) (2) کے تحت کون سے جرائم آتے ہیں اس پر معاونت کرنی ہے۔
ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے، جسٹس منیب اختر
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ایمرجنسی اور جنگ کی صورتحال میں تو ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہو سکتا ہے، اس پر عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ بھی یہ ہی شرط عائد کرتا ہے کہ جنگی حالات ہوں تو ہو گا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ صرف جنگ اور جنگی حالات میں کسی شخص کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے، جب بنیادی حقوق معطل نہ ہوں تو سویلین کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں نہیں ہو سکتا۔
ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہمارا آئین، ہمارے بنیادی حقوق، ہمارے قوانین سب ارتقائی مراحل سے گزر کر مختلف ہو چکے ہیں، اب ہمارے آئین میں آرٹیکل اے-10 شامل ہے جس کو دیکھنا ضروری ہے۔
عزیر بھنڈاری نے مزید کہا کہ آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل اسٹرکچرکی بات کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں، یہ تمام آرٹیکل بیشک الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے، سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا، کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے ملک میں بے چینی کی کیفیت ہو گی، ایف آئی آر میں کہیں بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر نہیں کیا گیا، آرمی اسپورٹس سمیت مختلف چیزوں میں شامل ہوتی ہے، اگر وہاں کچھ ہو جائے تو کیا آرمی ایکٹ لگ جائے گا، دریں اثنا عزیر بھنڈاری نے سیکشن 2 (ڈی) پڑھ کر سنایا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل کے لیے جرم آفیشل سیکیریٹری ایکٹ کے تحت ہونا چاہیے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ دیکھائیں۔
عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آفیشل آرمی ایکٹ کے مطابق کسی بھی ممنوعہ قرار دیے گئے علاقے پر حملہ یا استعمال جس سے دشمن کو فائدہ ہو جرم ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ممنوعہ علاقہ تو وہ ہوتا ہے جہاں جنگی پلانز یا جنگی تنصیبات ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرمی افسران کی سب سے اہم چیز ان کا مورال ہوتا ہے، آرمی افسران کا مورال ڈاون کرنا بھی جرم ہے،آرمی افسران اپنے ہائی مورال کی وجہ سے ہی ملک کی خاطر قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں، اگر مورال متاثر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ بھی دشمن کو ہو گا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق تب ہوتا ہے جب کوئی ایسی چیز ہو جس سے دشمن کو فائدہ پہنچے۔







