قومی اسمبلی سے وفاقی بجٹ کی منظوری

گزشتہ دنوں وفاقی حکومت نے 14 ہزار 480 ارب حجم کا عوام اور کاروبار دوست بجٹ پیش کیا تھا، جس کی لگ بھگ تمام ہی حلقوں کی جانب سے تعریف و توصیف کی گئی تھی، اسے بے پناہ سراہا گیا، اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ناصرف تاریخ ساز اضافہ کیا گیا تھا بلکہ پنشن میں بھی معقول بڑھوتری ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اس میں کوئی نیا ٹیکس شامل نہیں کیا گیا تھا۔ عوام کی سہولت اور ریلیف کے لیے مرکزی حکومت نے بڑے فیصلے لیے تھے۔ غریبوں کے مصائب و آلام کے لیے اس میں بیشتر اقدامات تھے۔ صنعت اور آئی ٹی شعبے کی ترقی کے لیے معقول رقم مختص کی گئی تھی۔ اسی طرح شعبۂ تعلیم اور صحت کے لیے بھی بجٹ میں خاصا بڑا حصّہ رکھا گیا تھا۔ اس عوام دوست بجٹ کو قومی اسمبلی میں کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے۔قومی اسمبلی نے گزشتہ روز 14ہزار 480 ارب روپے کا وفاقی بجٹ کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 9ہزار 200سے بڑھاکر 9 ہزار 415 ارب مقرر کردیا گیا، پنشن ادائیگی 761 ارب سے بڑھاکر 801ارب کردی گئی ہے، این ایف سی کے تحت 5ہزار 276ارب کے بجائے 5 ہزار390 ارب ملیں گے، فنانس بل میں مزید ترمیم کے تحت 215 ارب کے نئے ٹیکس عائد کیے گئے ہیں، بی آئی ایس پی پروگرام 459ارب کے بجائے 466ارب کردیا گیا۔ وفاقی ترقیاتی بجٹ ساڑھے 9سو ارب کا ہوگا۔ بجٹ کی منظوری کے وقت ایوان میں اپوزیشن کا کوئی رکن بھی موجود نہیں تھا، مولانا عبدالاکبر چترالی اور غوث بخش مہر کے سوا کوئی شریک نہیں ہوا۔ اتوار کو قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں منعقد ہوا، جس میں فنانس بل کی شق وار منظوری لی گئی۔ اپوزیشن کے رکن عبدالاکبر چترالی کی ترمیم منظور، حکومت نے مخالفت نہیں کی، ترمیم کے تحت چیئرمین قائمہ کمیٹیوں کو 1200سی سی تک گاڑی استعمال کرنے کی اجازت ہوگی، اس وقت 1300 سے 1600سی سی تک گاڑی استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ وزیر خزانہ نے پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی آرڈیننس میں ترمیم پیش کی، قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے ترمیم منظور کرلی، پٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی کی حد 50 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 60روپے فی لیٹر کردی گئی، ترمیم کے تحت وفاقی حکومت کو 60 روپی فی لیٹر تک لیوی عائد کرنے کا اختیار ہوگا، اجلاس میں ترمیم کی گئی کہ تین ہزار دو سو ارب روپے کے زیر التوا 62ہزار کیسز سمیت تنازعات کے حل کے لیے 3رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ کمیٹی کے فیصلے کے خلاف ایف بی آر اپیل دائر نہیں کرسکے گا، تاہم متاثرہ فریق کو عدالت سے رجوع کرنے کا اختیار ہوگا، اجلاس میں پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں اور پرانے بلبوں پر یکم جنوری 2024 سے اضافی ٹیکسوں کے نفاذ کی ترمیم منظور کرلی گئی۔ ترمیم وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پیش کی، ترمیم کے تحت پرانی ٹیکنالوجی کے حامل پنکھوں پر یکم جنوری 2024 سے دو ہزار روپے فی پنکھا ٹیکس عائد ہوگا، پرانے بلبوں پر یکم جنوری 2024 سے 20 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔ پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ٹیکس ایک سے 2 فیصد کرنے کی ترمیم منظور کی گئی۔ کھاد پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی ترمیم بھی منظور کی گئی، جوسز پر عائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی دس فیصد سے بڑھا کر 20فیصد کردی گئی۔ اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہمارا سالانہ 800سو ارب روپے پنشن کی مد میں خرچ ہوجاتا ہے، ہمیں پنشن کے حوالے سے اصلاحات کرنا پڑیں گی اور ہم نے اس کا آغاز کر دیا ہے، ورنہ یہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوجائے گا۔ قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے فنانس بل اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیجنے کی تحریک کی مخالفت کرتے ہوئے مسترد کردی۔ مالی سال 22۔2021ء اور 23۔2022ء کیلئے 1581ارب 74کروڑ روپے کا ضمنی بجٹ منظور کرلیا گیا۔ ایوان نے مالی سال 22۔2021کیلئے 973ارب 66کروڑ روپے سے زائد کے 69ضمنی مطالبات زر کی منظوری دے دی۔ دفاع کیلئے 89ارب 67کروڑ روپے، کابینہ ڈویژن کے لئے 11ارب 94کروڑ روپے، پاور ڈویژن کے لئے 300ارب، پٹرولیم ڈویژن کے لئے 204ارب 36کروڑ روپے کے مطالبات زر منظور کئے گئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2023۔24کے وفاقی بجٹ میں 2000سی سی سے زائد کی گاڑیوں کی رجسٹریشن پر ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کر دیا ہے، اس کے علاوہ دو لاکھ روپے ماہانہ سے زائد آمدنی رکھنے والوں کے لئے بھی ٹیکس کی شرح بڑھادی ہے۔ نئے مالی سال کے لیے قومی اسمبلی سے منظور ہونے والا بجٹ اصلاحات پر مبنی دِکھائی دیتا ہے، یہ معیشت کی صورت حال بہتر بنانے اور اسے استحکام عطا کرنے کے حوالے سے ایک اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے۔ گو اس میں آئی ایم ایف کے مطالبات پر کچھ مشکل فیصلے بھی شامل کیے گئے ہیں، لیکن آئندہ وقتوں میں اس کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو ملکی معیشت کے لیے کفایت شعاری کی راہ انتہائی اہم سنگِ میل ثابت ہوسکتی ہے۔ ضروری ہے کہ حکومتی اخراجات میں کمی کے لیے بھی حکومت راست اقدامات یقینی بنائے۔ غیر ضروری اخراجات کم کیے جائیں۔ وزرائ، ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مراعات میں معقول حد تک کمی کے حوالے سے بڑے فیصلے کیے جائیں۔ موجودہ صورت حال میں ایسا کرنا ازحد ضروری ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورت حال اس کا تقاضا کرتی ہے، لہٰذا اس حوالے سے اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ دوسری جانب ازحد ضروری ہے کہ ملک کو چلانے کے لیے قرضوں پر انحصار کرنے کے بجائے وسائل پر انحصار کی پالیسی اختیار کی جائے۔ ملک عزیز قدرت کے انمول خزانوں سے مالا مال ہے۔ ان کو صحیح طور پر بروئے کار لایا جائے تو صورت حال چند برسوں میں بہتر رُخ اختیار کرلے گی۔
انسدادِ منشیات کا عالمی دن اور اس کے تقاضے
پاکستان کے عوام کی بدقسمتی کہ گزشتہ دو تین دہائیوں کے دوران ملک میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جو بلاشبہ تشویش ناک امر قرار دیا جاسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ایک کروڑ سے زائد پاکستانی نشے کی لت میں مبتلا ہیں جب کہ ان میں 35لاکھ خواتین بھی شامل ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ وطن عزیز میں منشیات کی آزادانہ خرید و فروخت اور اس کی اسمگلنگ بتائی جاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ پاکستان کے قریباً ہر چھوٹے بڑے شہر میں مختلف فٹ پاتھوں پر بڑی تعداد میں لوگ نشہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان میں سے کوئی نشے کی صورت میں زہر انجکشن کے ذریعے اپنی رگوں میں داخل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کوئی پائوڈر یا دوسری اشیاء کو سونگھ کر نشے کی جھینپ مٹارہا ہوتا ہے۔ غرض یہ لوگ مختلف طریقوں سے اپنی موت کا سامان آپ کررہے ہوتے ہیں۔ یہ تو وہ افراد ہیں جو نشے کی تمام حدود پھلانگ چکے ہیں اور اس کے بغیر ان کا گزارا بھی نہیں ہوسکتا اور اس بدولت یہ گھر بار چھوڑ کر سڑکوں پر ہی زیست بسر کررہے ہیں جب کہ اس سے بھی کئی گنا بڑی تعداد میں ایسے افراد کسی نہ کسی نشے میں مبتلا ہیں جو عام یا کہنا چاہیے نارمل زندگی بسر کررہے ہیں۔ آخرالذکر افراد چھپ کر نشہ کرتے ہیں۔ اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ اندازوں سے بھی کہیں گنا زیادہ تعداد میں پاکستانی نشے کی لت میں مبتلا ہیں۔ اس تمام خرابے کا بنیادی سبب بلاشبہ پاکستان میں منشیات کی آزادانہ خرید و فروخت اور اس کی اسمگلنگ کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔دُنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پیر کو انسداد منشیات کا عالمی دن منایا گیا، جس کا بنیادی مقصد دُنیا بھر میں منشیات کے استعمال کی روک تھام، غیر قانونی تجارت کے خاتمے اور اس کی تباہ کاریوں کے سلسلے میں عوام النّاس میں شعور و آگہی پیدا کرنا تھا۔ پاکستان میں اس حوالے سے جو مایوس کن صورت حال دِکھائی دیتی ہے، اُس میں کیا ملک عزیز سے منشیات کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے؟ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی جائے تو مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ملے گا، کیوںکہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور متعلقہ ادارے منشیات فروشوں اور اسمگلروں کے خلاف ایسی موثر کارروائیاں اب تک نہیں کرسکے ہیں کہ جن کی بدولت اس برائی کا پاکستان سے مکمل طور پر خاتمہ ہوسکے۔ مانا کہ بھاری مقدار میں منشیات پکڑی ضرور جاتی ہے، اُسے ضائع بھی کردیا جاتا ہے، لیکن اس سے بھی کئی گنا زیادہ مقدار میں منشیات لوگوں کو استعمال کے لیے دستیاب ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ منشیات کی تجارت اور اس کی فروخت میں ملوث گروہوں کے پولیس اور ’’بااثر شخصیات’’ کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں، جو انہیں اس گھنائونے دھندے میں مکمل سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ ایسے میں کیونکر اس مکروہ کاروبار کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ منشیات کا عالمی تقاضا کرتا ہے کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کو اس بُرائی سے بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں اور متعلقہ محکموں کو اب اس برائی کے مکمل خاتمے کے لیے موثر کارروائیاں کرنی ہی ہوں گی، نہ صرف منشیات فروشوں اور اسمگلروں بلکہ ان کی پشت پناہی کرنے والے افراد کو بھی بے نقاب کرنا اور ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کو یقینی بنانا ہوگا، تبھی جاکر ملک عزیز سے منشیات کی روک تھام کے حوالے سے صورت حال بہتر ہوسکے گی۔





