
فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر جسٹس منصور علی شاہ کے 7 رکنی بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد 6 رکنی بینچ نے سماعت کا دوبارہ آغاز کردیا۔
چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں پر سپریم کورٹ کا 6 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
6 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ بینچ سے علیحدہ
قبل ازیں فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر آج 7 رکنی بینچ نے سماعت کا آغاز کیا تھا۔
7 رکنی لارجر بینچ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل تھا۔
سماعت کے آغاز پر وفاقی حکومت نے جسٹس منصور علی شاہ کے بینچ میں شامل ہونے پر اعتراض اٹھا دیا، اٹارنی جنرل نے روسٹروم پر آ کر بینچ کے حوالے سے وفاقی حکومت کی ہدایات سے عدالت کو آگاہ کیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک درخواست گزار جسٹس منصور علی شاہ کے رشتہ دار ہیں، اس لیے ان کے کنڈکٹ پر اثر پڑ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کی خواہش پر بینچ نہیں بن سکتے، حکومت عدلیہ کی تضحیک نہ کرے، حکومت ہمیں ہم خیال ججز کا طعنہ دیتی ہے، آپ کس بات پر اس عدالت کے معزز جج پر پر اعتراض اٹھا رہے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میرا ذاتی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کو سزا نہیں سنائی، عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد اخلاقی ذمہ داری ہے، ہمارے پاس فیصلوں پر عمل کے لیے کوئی چھڑی نہیں، بہت سے لوگوں کے پاس چھڑی ہے لیکن ان کے پاس اخلاقی جواز کیا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں نے تو پہلے ہی دن آکر کہا تھا کسی کو کوئی اعتراض ہے تو بتا دیں۔
دریں اثنا جسٹس منصور علی شاہ نے خود کو 7 رکنی بینچ سے الگ کر لیا جس کے نتیجے میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے تشکیل کردہ 9 رکنی لارجر بینچ ٹوٹنے کے بعد 7 رکنی بینچ بھی ٹوٹ گیا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ مفادات کے ٹکراؤ پر اعتراض اٹھا رہے ہیں، آپ ایک بہت اچھے کردار اور اچھی ساکھ کے مالک وکیل ہیں، ایک پوری سیریز ہے جس میں بینچ پر باربار اعتراض اٹھایا جا رہا ہے، پہلے یہ بحث رہی کہ پنجاب الیکشن کا فیصلہ 3 ججوں کا تھا یا 4 کا، جواد ایس خواجہ صاحب ایک درویش انسان ہیں، آپ ایک مرتبہ پھر بینچ کو متنازع بنا رہے ہیں۔
دوران سماعت شعیب شاہین نے کہا کہ یہ کسی کا ذاتی کیس نہیں یہ بنیادی حقوق کا کیس ہے جبکہ حامد خان نے ججز سے کیس سننے کی استدعا کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سمجھنے کی کوشش کریں، یہ ججز کا اپنا فیصلہ ہے، میں یہ کیس نہیں سن سکتا۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں اپنا کنڈکٹ اچھی طرح جانتا ہوں، کوئی ایک انگلی بھی اٹھا دے میں پھر کبھی اس بینچ کا حصہ نہیں رہتا۔
حامد خان نے کہا کہ اس موقع پر اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اب معزز جج خود ہی معذرت کر چکے ہیں۔
اس دوران فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ جسٹس ایم آر کیانی نے اپنے طلبہ سے مذاق میں ایک بات کہی تھی، انہوں نے کہا تھا کیس ہارنے لگو تو بینچ پر اعتراض کر دو، وفاقی حکومت اب یہی کر رہی ہے۔
دریں اثنا عدالتی عملے کی جانب سے فریقین کے لیے جاری ہدایت میں کہا گیا کہ 11 بجے بیچ دوبارہ آئیے گا، چیف جسٹس نیا بینچ تشکیل دیں گے۔







