
ویسے تو سابق وزیر اعظم عمران خان خود کو ایک جمہوری لیڈر قرار دیتے ہیں۔ لیکن ان کے سیاسی کردار کو مورخین مختلف انداز میں دیکھتے ہیں۔ مشرف کا کھل کر ساتھ دینے کا معاملہ تو اب ریکارڈ کا حصہ ہے لیکن اب ان سے منسوب ایک ایسا دعوی سامنے آیا ہے جو کہ سیاسی طور پر انکے جمہوریت پسند ہونے پر بڑا سوالیہ نشان لگاتا ہے۔ یہ واقعہ عمران خان کی جانب سے تحریک انصاف کی بنیاد رکھے جانے سے قبل کا ہے۔ سٹریٹیجک اور سیاسی معاملات کی رپورٹنگ کرنے والے تجربہ کار صحافی حسن مجتبی نے اپنے ایک کالم میں لکھا ہے کہ عمران خان سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ر حمید گل کی تیار کردہ اس سازش کا بنیادی مہرہ تھے جو انہوں نے بے نظیر حکومت کو گرانے کے لئے بنی تھی۔
وہ لکھتے ہیں کہ 1993 کے انتخابات کے نتائج میں دوسری بار اقتدار میں آنے والی بینظیر بھٹو کو بہت ہی عجیب اور خوفناک مخالفت کا سامنا تھا۔ایک جانب اس کا پرانا اور جانا پہچانا مخالف جنرل ریٹائرڈ حمید گل تھا تو دوسری طرف کوئی اور نہیں بلکہ اس کا اپنا سگا بھائی مرتضیٰ بھٹو تھا۔
انہی سالوں میں ایک طرف ایم کیو ایم کے دونوں دھڑوں حقیقی اور مجازی یعنی ایم کیو ایم (الطاف) اور فرقہ ورانہ تنظیموں اور جنرل نصیر اللہ بابر کی سربراہی میں پولیس نے کراچی کو قتل گاہ بنایا ہوا تھا تو دوسری طرف فوج کے سینیئر اور مڈل رینک کے کچھ ایسے افسران پکڑے گئے تھے جنہوں نے بینظیر بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ دینے کی سازش کی تھی جس کے مطابق انہوں نے عمران خان کو وزیر اعظم بنانا تھا۔ انہی دنوں میں کراچی میں ہفت روزہ ‘تکبیر’ کا مدیر صلاح الدین بھی قتل ہوا تھا اور کراچی کی گلی گلی سے بوریوں میں بند لاشیں مل رہی تھیں۔
انہی دنوں قتل کی دھمکیاں ملنے پر عبدالستار ایدھی ملک چھوڑ کر برطانیہ چلا گیا تھا۔ ملک چھوڑنے سے قبل عبدالستار ایدھی نے کراچی میں پریس کانفرنس کی تھی جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ کچھ لوگ ان سے ان کے کراچی میں میٹھا در ایدھی مرکز کے صدر دفتر ملنے آئے اور ان کو بینظیر بھٹو کی حکومت ہٹانے میں ان کا ساتھ دینے کی درخواست کی۔
جب ایدھی صاحب نے ان سے معذرت کی تو پھر انہیں قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہ بات عبدالستار ایدھی نے اپنی خودنوشت ‘اندھوں کو آئینہ’ میں بھی بیان کی ہے جن کے ساتھ میٹھا در مرکز میں ملاقات کرنے والی شخصیت انہوں نے عمران خان بتائی ہے۔
یہ کالم نیوز ویب سائٹ نیا دور پر شائع ہوا۔







