وزیراعظم کا دورہ فرانس اور عالمی کانفرنس میں شرکت

ماحولیاتی آلودگی کا عفریت دُنیا بھر میں بڑے پیمانے پر موسمیاتی تغیر کا باعث بنا ہے۔ سخت سردی اور آگ اُگلتی گرمی کے موسم دیکھنے میں آرہے ہیں۔ امراض کے پھیلائو میں اضافہ ہورہا ہے۔ نت نئی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں۔ ماحول دشمنی میں دُنیا کے لوگوں نے اپنے پیروں پر خود کلہاڑی دے ماری ہے۔ پورے عالم میں قدرتی آفات تیزی سے رونما ہوتی نظر آتی ہیں۔ زلزلے، سمندری طوفان، شدید بارشیں، سیلاب وغیرہ سے ہر سال بے شمار لوگ اپنی زندگی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ بہت سوں کا مقدر بے گھری بنتی ہے۔ بچ جانے والے متاثرین عمر بھر کی جمع پونجی سے محروم ہوجاتے ہیں۔ حکومتیں ان لوگوں کی دادرسی اور بحالی کے لیے کوشاں دِکھائی دیتی ہیں۔ امیر ممالک کو آفات سے سنبھلنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی، لیکن غریب ممالک کے لیے قدرتی آفات سے سنبھلنا ازحد مشکل اور دُشوار گزار ترین ہوتا ہے۔ دیکھا جائے دُنیا بھر میں معاشی ناانصافی زور پکڑتی دِکھائی دیتی ہے۔ دُنیا کے بعض خطے ایسے ہیں، جہاں دولت اور ثروت کی بارش ہوتی ہے جب کہ ایسے خطوں کی بھی کمی نہیں جہاں لوگ ایک وقت کی روٹی کو بھی ترس رہے ہوتے ہیں۔ یہ ترقی پذیر ممالک بڑے کٹھن حالات سے گزر رہے ہیں۔ کرونا وائرس کی عالمی وبا نے ان کی معیشتوں کو مزید گزند پہنچائی ہے، جس سے سنبھلنے میں انہیں طویل عرصہ درکار ہے۔ قدرتی آفات کا مسلسل سامنا کرنے والے معاشی بے انصافی کا شکار ملکوں کو سنبھالا دینے کے لیے متمول مملکتوں اور اداروں کو آگے آنا چاہیے۔ اسی سلسلے میں فرانس میں ایک عالمی گول میز کانفرنس میں پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی شرکت کی اور اس موقع پر اُنہوں نے خطاب میں ملک عزیز کو درپیش چیلنجز اور قدرتی آفت کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال سے آگاہ کیا۔وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جب تک عالمی سطح پر معاشی انصاف نہیں ہوگا تو دُنیا خطرے سے دوچار ہوگی۔ ہمیں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کے لیے انصاف، شفافیت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے پالیسی مرتب کرنا ہوگی، بعض ممالک کی حفاظت کے لیے اربوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں، لیکن ہزاروں زندگیوں کو بچانے کے لیے بھاری قیمت ادا کرکے قرضہ لینا پڑتا ہے۔ نئے عالمی مالیاتی معاہدے کے سربراہی اجلاس کے موقع پر نئے زد پذیر چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے دستاویزات اور فنانسنگ کے ساتھ جدت کے موضوع پر گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر آج عملی اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والا وقت خطرناک ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں، سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ہم نے کروڑوں ڈالر خرچ کیے، جس سے ملکی معیشت کو مشکلات کا سامنا ہے، پاکستانی قوم نے سیلاب جیسی قدرتی آفات کا بہادری سے مقابلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس اہم معاملے پر سربراہ اجلاس بلانے پر فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون کی قیادت قابل تعریف ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے باعث سیلاب سے متاثر ہوا، اس سے ہمارا زندگی گزارنے کا انداز متاثر ہوا، 3کروڑ 3لاکھ لوگ سیلاب سے متاثر ہوئے، کئی ملین ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں، بچوں سمیت 1700افراد جاں بحق ہوئے، پانچ لاکھ مویشی بہہ گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ 20لاکھ گھروں کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچا، اتنے بڑے پیمانے پر نقصان ہونے کے باوجود تمام فریقوں نے جامع حکمت عملی اختیار کی، ہمیں ملک بھر میں بڑے پیمانے پر بحالی کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے، ہم بروقت مدد پر دُنیا بالخصوص دوست ممالک کے شکر گزار ہیں، تاہم ہم نے اپنے وسائل سے بھی سیلاب متاثرین کی مدد کی جب کہ مزید وسائل کے لیے عالمی سطح پر بھی رابطے کیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں قرضے لینے پڑتے، جس سے ہمارے ملک پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے، سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ نے پاکستان میں سیلاب سے تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ سیلاب کے باعث شہروں کے شہر ملیامیٹ ہوگئے، انہوں نے کہا موجودہ چیلنجز سے بہادری سے نکلیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ پیرس میں بہت مفید ملاقاتیں ہوئیں، ہمیں موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ ممالک کے لیے انصاف، شفافیت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے پالیسی مرتب کرنا ہوگی، اگر آج عملی اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والا وقت خطرناک ہوگا۔ اس میں شبہ نہیں کہ وزیراعظم کی سربراہی کانفرنس میں شرکت پاکستان کے لیے دوررس ثابت ہوگی۔ وزیراعظم نے فرانس میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے ملاقات کی، ملاقات میں آئی ایم ایف پروگرام اور تعاون پر تبادلہ خیال کیاگیا، پاکستان کی صورت حال سے آگاہ کیا اور کہا کہ آئی ایم ایف کی قسط اجرا سے پاکستان میں معاشی استحکام آئے گا اور عوام کو ریلیف ملے گا۔ اس کے علاوہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کی سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ، فرانس اور مصر کے صدور، امریکی نمائندہ خصوصی اور سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سے اہم ملاقاتیں بھی رہیں۔ فرانس کی جانب سے اس اہم معاملے پر سربراہی کانفرنس کا انعقاد یقیناً قابل تعریف قرار پاتا ہے۔ دوسری مملکتوں کو بھی اس قسم کے پروگرامز کا انعقاد کرکے دُنیا کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے میں مشترکہ کاوشوں کی داغ بیل ڈالنی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی سربراہی کانفرنس میں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے ناصرف پاکستان بلکہ دُنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی مشکلات کا بھرپور احاطہ کیا ہے۔ پاکستان کو لاحق مصائب کو احسن انداز میں بیان کیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ موسمیاتی تغیر ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس کے حل کے لیی متمول ممالک کو ترقی پذیر ریاستوں کی ہر طرح سے معاونت و مدد کرنی چاہیے۔ اُن کو آسانی فراہم کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ اُنہیں پیروں پر کھڑا کرنے اور سنبھلنے میں مدد دینی چاہیے۔ امیر ممالک ہی دُنیا کو بڑی تباہی سے بچانے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
ٹائٹن آبدوز کے مسافروں کی ہلاکت کی تصدیق
ٹائی ٹینک جہاز کا ملبہ دیکھنے جانے والی آبدوز خود ملبے میں تبدیل ہوگئی۔ پانچ مسافر جاں بحق ہوگئے، جن میں سے دو کا تعلق پاکستان سے تھا۔ شہزادہ دائود اور اُن کے 19سالہ بیٹے سلیمان داد۔ یہ پاکستان کے معروف بزنس مین گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اتوار 18جون کو ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے جانے والی اس آبدوز کا رابطہ سفر شروع ہونے کے بعد اسی روز منقطع ہوگیا تھا، جس کے بعد سے اس کی تلاش جاری تھی۔ ان کی تلاش کے لیے چار، پانچ روز تک بھرپور کوششیں جاری رکھی گئیں۔ اتوار کو 111سال قبل غرقاب ہونے والے جہاز ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے جانے والی ٹائٹن آبدوز کے مسافروں کی اموات کی تصدیق ہوگئی۔ ٹائٹن آبدوز کمپنی نے اس حوالے سے تصدیق کردی ہے۔ بحریہ اوقیانوس میں غرقاب جہاز ٹائی ٹینک کے قریب سے لاپتا آبدوز کا ملبہ ملنا شروع ہوگیا ہے۔ بیرون ملک کے میڈیا کے مطابق آبدوز کمپنی اوشین گیٹ نے مسافروں کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اوشین گیٹ کی جانب سے کہا گیا کہ لاپتا ہونے والی ٹائٹن آبدوز کے تمام مسافر ہلاک ہوچکے ہیں۔ عالمی میڈیا کے مطابق سرچ آپریشن میں شامل ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ ملنے والا ملبہ آبدوز کے لینڈنگ فریم اور پچھلے کور پر مشتمل ہے، ملبہ ملنا نشان دہی کرتا ہے کہ آبدوز دھماکے سے تباہ ہوئی۔ اس سے قبل امریکی کوسٹ گارڈ نے کہا کہ بحراوقیانوس میں غرقاب جہاز ٹائی ٹینک کے قریب سے ملبہ برآمد ہوا ہے جو ممکنہ طور پر لاپتا آبدوز کا ہوسکتا ہے۔ اس بدقسمت آبدوز میں پانچ مسافروں میں سے 2کا تعلق پاکستان سے ہے۔ شہزادہ دائود اور اُن کے بیٹے سلیمان دائود کے لیے یہ سفرِ آخر ثابت ہوا۔ پاکستانی بزنس مین گھرانے حسین اینڈ کلثوم دائود فیملی نے بھی اپنے پیاروں کی موت کی تصدیق کی ہے۔ انہوں نے دیگر مسافروں کی اموات پر بھی افسوس کا اظہار کیا اور اُن کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ شہزادہ دائود اور سلیمان دائود کی آخری رسوم سے متعلق جلد آگاہ کیا جائے گا۔ یہ حسین اینڈ کلثوم دائود فیملی کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے۔ اُن کے دو اہم ممبرز ہمیشہ کے لیے اُن سے جدا ہوگئے۔ پورے ایک ہفتے تک یہ معاملہ عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ شہزادہ دائود کی بڑی بہن عزم دائود نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ بھتیجا سلیمان ٹائی ٹینک کی باقیات دیکھنے کے سفر سے خوف زدہ تھا، وہ صرف فادرز ڈے پر والد کو خوش کرنے کی خاطر اس پُرخطر سفر میں شریک ہوا تھا۔ اس واقعہ پر سب دُکھ کی کیفیت میں ہیں۔ حکومت پاکستان نے بھی اپنے دُکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔







