
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میرا دوسرا نقظہ فیئر ٹرائل کا ہے کیونکہ ایک الزام پر ٹرائل کے بعد کچھ لوگوں کے پاس اپیل کا حق ہو گا اور کچھ کے پاس نہیں۔
ان کے مطابق سپریم کورٹ کے پانچ فیصلے موجود ہیں، جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں۔
وکیل فیصل صدیقی کے مطابق سنہ 1998 میں ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلہ آیا۔ اس فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ ’دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا اصول سیٹ کیا گیا ہے؟‘
فیصل صدیقی نے کہا کہ ’بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو ’بائی پاس‘ کیا گیا ہو۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ ’کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے اور ایسے کون سے مخصوص حالات ہیں، جن میں ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟
فیصل صدیقی نے کہا کہ ’عدالتی فیصلے یہ کہتے ہیں کہ واضح تفریق ہونی چاہیے۔‘
ان کے مطابق ہم نہیں کہتے کہ لوگوں کا سخت ٹرائل نہ ہو، انسدادِ دہشت گردی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کہاں ہو سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ملٹری کے اندر کام کرنے والا بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا۔ انھوں نے ریمارکس دیے کہ ملٹری حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ جو آپ کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں اور 9 مئی کے واقعات کے مقدمات میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ ’آپ کے دلائل کی بنیاد یہ ہے کہ کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرے؟جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیشل سیکورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ ’سٹیٹ سکیورٹی کے حدود میں جائیں گے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ’ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ کار ہے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقے، عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیے کہ ’آپ ابھی تک بنیادی پوائنٹ ہی نہیں بتا سکے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں۔ اگر ایف آئی آر میں افیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’آپ سے دو سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں۔ آپ بتائیں آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہو گا۔ آرمی کے اندر ایسے فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے؟
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ’آپ نہیں سمجھتے کہ پہلے اٹارنی جنرل سے پوچھا جائے کہ مقدمات کیسے بنے؟
چیف جسٹس نے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ دلائل جاری رکھیں وکلا کے بعد اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہو سکتا ہے اٹارنی جنرل کل مانگی گئی نفصیلات پر آج بیان ہی دیں۔
فیصل صدیقی نے کہا کہ کل عدالت نے پوچھا تھا کہ یہ درخواستیں پہلے ہائیکورٹ میں نہیں جانی چاہیے تھیں۔ فیصل صدیقی کے مطابق ایک سے زیادہ صوبوں کا معاملہ ہے ایک ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بن سکتا۔
ان کے مطابق ’یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابلِ سماعت ہیں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’نیشل سیکورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا۔‘
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ’ہوسکتا ہے جن لوگوں کو ملٹری کورٹس کے حوالے کیا گیا ان پر الزامات کی نوعیت الگ ہو، آپ صرف مفروضے پر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔ جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آپ عمومی بحث پر جا رہے ہیں یہ بھی علم نہیں ان لوگوں کو کس کس شق کے تحت ملٹری کورٹس بھجا گیا۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ’فرض کریں ان کے خلاف شواہد بھی موجود ہیں تو دکھاوں گا کہ انھیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھجا جا سکتا ہے۔







