تازہ ترینخبریںپاکستان

فوجی عدالتوں میں شہریوں پر مقدمے چلانے کے خلاف حکم امتناع کی استدعا مسترد، گرفتار شدگان کا ڈیٹا طلب

سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور لطیف کھوسا کے درمیان مکالمہ ہوا۔ چیف جسٹس کی جانب سے کہا گیا کہ ’آپ کہتے ہیں ملٹری کورٹس کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہوتا، آپ کہہ رے ہیں کہ ملٹری کورٹس کا فیصلہ پبلک نہیں ہوتا اس کی وجوہات واضح نہیں ہوتیں۔‘

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ’آرمی ایکٹ تو آرمڈ فورسز میں کام کرنے والوں کے متعلق ایکٹ ہے۔ کیا آپ نے اس ایکٹ کو چیلیج کیا؟

اس بارے میں بات کرتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی کا کہنا تھا کہ ’ملزمان کو سیکشن 549 تھری کے تحت اے ٹی سی نے ملٹری حکام کے حوالے کیا، آرمی ایکٹ کے تحت سزا کم ہے اور عام قانون میں سزا زیادہ ہے۔‘

جسٹس منیب اختر نے اس پر کہا کہ ’وزارت قانون کے ویب سائٹ پر549 کی سب سیکشن تھری ہے ہی نہیں۔

سردار لطیف کھوسہ کی جانب سے ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر سٹے جاری کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ہر چیز کا جواب سٹے آڈر سے نہیں دیا جا سکتا۔‘

لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ’وہاں وہ راتوں رات سزا سنا دیتے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ’آپ سنیں تو صحیح ہم کیا کرنے لگے ہیں۔‘

لطیف کھوسہ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا کی ہے تاہم سپریم کورٹ نے فوری حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کر دی ہے۔

چیف جسٹس کی جانب سے نو مئی کے بعد گرفتار ہونے والوں اور سویلین اور فوجی حراست میں افراد کی فہرست مانگ لی ہے۔

اس کے ساتھ کیس کی مزید سماعت کل ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

جواب دیں

Back to top button