
سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ کے سامنے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمات کے خلاف درخواست پر دلائل دیتے ہوئے اعتزاز احسن کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ نو مئی کے واقعات سے متعلق کور کمانڈر میٹنگ ہوئی، جس میں کہا گیا کہ جو لوگ بھی ان واقعات میں ملوث ہیں ان کے خلاف ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔
ان کے مطابق اس کے بعد 20 مئی کو نیشنل سیکیورٹی کے اجلاس میں بھی اسی قسم کے الفاظ دہرائے گئے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ سویلینز کا ٹرائل یا توکوئی کرنل کرے گا یا پھربریگیڈیئر۔ ان کے مطابق جب فارمیشن کمانڈر نے کہہ دیا ناقابل تردید شواہد ہیں تو ایک کرنل اب ٹرائل میں کیا الگ فیصلہ دے گا؟
جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا انھوں نے یہ کہا کہ ان واقعات میں ملوث افراد کے مقدمات فوجی عدالتوں میں بھجوائے جائیں گے؟
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ایسا ہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس کی بات کریں نا کیونکہ آپ کی درخواست ہی فوجی عدالتوں کے خلاف ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 245 نافذ ہونے کے بعد ہائیکورٹس کا کا 199 کا اختیار ختم ہو گیا ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ فوج طلبی کا وہ نوٹیفیکیشن واپس ہو چکا ہے اور اٹارنی جنرل نے بھی نوٹیفکیشن کے واپس ہونے کی تصدیق کی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اس لیے ٹرائل ملٹری کورٹ میں ہو گا؟
جی پریس ریلیز میں یہی کہا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ صرف متعلقہ پیراگراف پڑھیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ متعلقہ پیراگراف میں کہا گیا ذمہ داروں کو آرمی ایکٹ کے تحت جلد کیفرکردار تک پہنچایا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے لیے کوئی ہمدردی نہیں ہے تاہم ان کے مقدمات انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں چلایا جائے گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کیا سویلینز کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں چل رہا ہے؟‘
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’بالکل سویلینزکا ٹرائل فوجی عدالتوں میں شروع ہو چکا ہے۔ قومی سلامتی اجلاس کے اعلامیے میں ناقابل تردید شواہد موجود ہونے کا کہا گیا ہے۔







