
فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف 4 درخواستوں پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس طارق مسعود نے خود کو 9 رکنی لارجر بینچ سے علیحدہ کرلیا۔
فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی زیرسربراہی 9 رکنی بینچ سماعت کررہا ہے۔
9 رکنی لارجر بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
سماعت کے آغاز پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل آپ روسٹرم پر آئیں، کچھ کہنا چاہتا ہوں، عدالتوں کو سماعت کا دائرہ اختیار ائین کی شق 175 دیتا ہے، صرف اور صرف آئین عدالت کو دائرہ سماعت کا اختیار دیتا ہے، ہر جج نے حلف اٹھایا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے تحت سماعت کرے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ واضح کرنا چاہتا ہوں کل مجھے تعجب ہوا کہ رات کو کاز لسٹ میں نام آیا، مجھے اس وقت کاز لسٹ بھجی گئی، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کو قانون بننے سے پہلے آٹھ رکنی بنچ نے روک دیا تھا، اس قانون کا کیوں کہ فیصلہ نہیں ہوا اس پر رائے نہیں دوں گا، اس سے پہلے ایک تین رکنی بنچ جس کی صدرات میں کررہا تھا 5 مارچ کو کررہا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ 5 مارچ والے فیصلے 31 مارچ کو ایک سرکولر کے زریعے فیصلے کو ختم کردیا جاتا ہے، ایک عدالت فیصلے کو رجسٹرار کی جانب سے نظر انداز کیا گیا یہ عدالت کے ایک فیصلے کی وقعت ہے، پہلے اس سرکولر کی تصدیق کی جاتی ہے پہر اس سرکولر کو واپس لیا جاتا ہے۔
ریمارکس کا سلسہ جاری رکھتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ غلطی ہوتی ہے ہم انسان ہیں، مجھ سے بھی غلطی ہوسکتی ہے، اس پر 8 اپریل کو میں نے نوٹ لکھا جو ویب سائیٹ پر لگا پھر ہٹا دیا گیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیے کہ قوانین میں ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر بھی ہے، اس قانون کے مطابق بنچ کی تشکیل ایک میٹنگ سے ہونی ہے، اس قانون کو بل کی سطح پر ہی روک دیا گیا، اس پر معزز چیف جسٹس نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا چیمبر ورک کرنا چاہتا ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ میں اس وقت تک کسی بینچ میں نہیں بیٹھ سکتا جب تک پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا، میں معذرت چاہتا ہوں، ججز کو زحمت دی، میں اس بینچ سے اٹھ رہا ہوں لیکن سماعت سے انکار نہیں کررہا، میں اس پر مزید بحث نہیں سن سکتا۔
جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ میں قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، ہم ان درخواستوں پر فیصلہ کریں گے، پہلے ان درخوستوں کو سنا جائے، اگر اس کیس میں فیصلہ حق میں آتا ہے تو اس کیس کی اپیل 8 جج کیسے سنیں گے؟
سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ معاملہ 25 کروڑ عوام کا ہے، اس پر جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ جب آئے گا تو دیکھ لیں گے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق کی جانب سے خود کو 9 رکنی بینچ سے علیحدہ کرنے کے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہمارے دو ججز نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی بنیاد پر اعتراض کیا ہے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں کہ اس کیس میں اٹارنی جنرل نے وقت لیا ہے، کیا پتا اس میں اسٹے ختم ہو، ہوسکتا ہے اس کیس میں مخلوق خدا کے حق میں فیصلہ ہو۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اس کیس میں بیٹھ کر سماعت کریں، یہ اہم کیس ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے کیس کا کوئی اور حل کرتے ہیں، ہم نے بھی یہ بنچ اپنے آئین کے تحت قسم کے مطابق بنایا، ہم یہاں مخلوق خدا کے حق میں فیصلے کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔
دریں اثنا سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کمرہ عدالت سے اٹھ کر چلاگیا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے فوجی عدالتوں میں آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں کے مقدمات چلانے کے خلاف دائر 4 درخواستوں کو سماعت کے لیے مقرر کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔
چیئرمین پی ٹی آئی، سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، معروف قانون دان اعتزاز احسن اور سول سائٹی کی جانب سے عام شہریوں مقدمات آرمی ایکٹ کے تحت فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔







