Editorial

معاشی بحالی کا قومی پلان، راست فیصلہ

ملک و قوم پچھلے 5 برسوں سے انتہائی کٹھن حالات سے دوچار ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ صورت حال انتہائی دُشوار گزار بنتی چلی گئی، معیشت کی کشتی ڈانواں ڈول رہی، اسے پار لگانے کے لیے سابق دور میں سنجیدہ اقدامات کا فقدان دِکھائی دیا۔ ناقص معاشی پالیسیوں کے بداثرات نے معیشت کو مشکلات کے بھنور میں پھنسائے رکھا۔ خوش حالی کے دعوے کرکے ملک و قوم کو مصائب کی دلدل میں دھکیلا جاتا رہا۔ پاکستانی روپے کو بے توقیر کرتے ہوئے اُسے بے وقعتی کی پستیوں کی نذر کردیا گیا۔ امریکی ڈالر اونچی اُڑانیں بھر کر ایشیا کی مضبوط ترین کرنسی کہلانے والے پاکستانی روپے کا مذاق اُڑاتا رہا۔ قوم کی چیخیں نکالنے کی باتیں کرکے اُن کا بھرکس نکال دیا گیا۔ دوست ممالک کو ناراض کرکے پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ اناڑیوں نے معیشت کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا کہ معاشی جہاز ڈوبنے کے درپے آگیا، پچھلے 70 برسوں میں ایسی ہولناک گرانی پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی، جتنی پچھلے 5 سال کے دوران ہوئی۔ ناقص پالیسیوں کا شاخسانہ تھا کہ متوسط طبقے کے لوگ غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔ بہت سے چھوٹے کاروباری لوگوں کو اپنے برسہا برس کے جمے جمائے کاروبار بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ بڑے بڑے اداروں، کمپنیوں، فیکٹریوں نے اپنے ورکرز کو بڑی تعداد میں ملازمت سے نکالا۔ بے روزگاری کا طوفان اور مہنگائی کا سیلاب کٹھن امتحان ثابت ہوئے۔ حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے، ملک ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکا تھا کہ اتحادی حکومت نے کرسی اقتدار سنبھالی اور معیشت کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے میں مصروفِ عمل ہوگئی۔ کافی بڑے فیصلے کیے گئے۔ ان میں سے کچھ کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور بعض کے آئندہ وقتوں میں ظاہر ہوں گے۔موجودہ حکومت اب بھی تندہی سے معیشت کی بحالی کے مشن پر گامزن ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس حوالے سے کوششیں کررہی ہے۔ اسی ضمن میں تازہ اطلاع کے مطابق پاکستان کی معاشی بحالی کا قومی پلان تیار کرلیا گیا، غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کیلئی اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل قائم کردی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کے پہلے اجلاس کا اعلامیہ سامنے آگیا۔ دوران اجلاس وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کو تعمیر اور ترقی کی طرف واپس لارہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت کو ورثے میں تباہی کے دہانے پر کھڑی معیشت ملی، معیشت کو مشکل اور دلیرانہ فیصلوں کے ذریعے بحرانوں سے نکال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ کاروں کو اولین ترجیح دی جائے گی، وفاق اور صوبوں کے اشتراک عمل سے منصوبوں کی منظوری کا عمل تیز بنایا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ متوقع سرمایہ کاری سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے، نوجوانوں اور خواتین کو روزگار ملے گا، آئیں مل کر اپنی بھرپور صلاحیتوں سے کام کرنے کا عزم کریں، اپنی توجہ بھٹکنے نہ دیں۔ دوران اجلاس آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاک فوج معاشی بحالی کے حکومتی پلان پر عمل درآمد کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاک فوج اسے پاکستان کی سماجی اور معاشی خوش حالی اور اقوام عالم میں اپنا جائز مقام واپس حاصل کرنے کی بنیاد سمجھتی ہے۔ اجلاس کے اعلامیے کے مطابق اس موقع پر وزرائی اعلیٰ، وفاقی و صوبائی وزراء اور اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ ’’اکنامک ریوائیول پلان’’ کا مقصد ملک کو موجودہ معاشی مسائل اور بحرانوں سے نجات دلانا ہے، جس کا مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔ اجلاس کے اعلامیے کے مطابق منصوبے کے تحت زراعت، لائیواسٹاک، معدنیات، کان کنی، انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی)، توانائی اور زرعی پیداوار جیسے شعبوں کی صلاحیت سے استفادہ کیا جائے گا۔ اعلامیے کے مطابق پاکستان کی مقامی پیداواری صلاحیت اور دوست ممالک سے سرمایہ کاری بڑھائی جائے گی، منصوبے کے تحت سرمایہ کاری اور کاروباری سرگرمیوں میں حائل تمام رکاوٹیں دور کی جائیں گی۔ اجلاس کے اعلامیے کے مطابق منصوبے کے تحت وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان اشتراک عمل پیدا کیا جائے گا، ’’ایک حکومت’’ اور ’’اجتماعی حکومت’’ کے تصور کو فروغ دیا جائے گا۔ معاشی بحالی کے قومی پلان کی تیاری بلاشبہ بروقت اور راست فیصلہ ہے۔ اس کی ضرورت بھی خاصی شدّت سے محسوس کی جارہی تھی۔ حکومت کی جانب سے کیے گئے اس اقدام کی ستائش نہ کرنا ناانصافی کے زمرے میں آئے گا۔ ضروری ہے کہ اس حوالے سے جو فیصلے کیے گئے ہیں، اُن پر مِن و عن عمل درآمد کیا جائے اور اس ضمن میں ذرا بھی کوتاہی کی گنجائش نہ چھوڑی جائے۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل کا قیام درست اقدام ہے۔ اس کونسل کو غیر ملکی سرمایہ کاری میں حائل تمام تر رُکاوٹوں کے خاتمے کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے موثر پلان تشکیل دیا جائے۔ اُن کو اعتبار دلایا جائے کہ ملک میں اُن کا سرمایہ محفوظ اور فائدہ مند ثابت ہوگا۔ اُن کو تمام تر سہولتوں کی فراہمی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اس حوالے سے وفاق اور صوبوں کے اشتراک کا فیصلہ بڑی کامیابی قرار پاتا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہونے سے روزگار کے بڑے مواقع جنم لیں گے اور ملک میں بسنے والے کئی بے روزگار لوگ اس سے مستفید ہوسکیں گے۔ پاک فوج کی جانب سے معاشی بحالی کے حکومتی پلان پر عمل درآمد کی کوششوں کی بھرپور حمایت قابل قدر ہے۔ معاشی بحالی کے قومی پلان کا مقصد ملک کو موجودہ بحرانوں کی صورت حال سے نجات دلانا ہے۔ اس حوالے سے اگر سنجیدگی کے ساتھ راست اقدامات ممکن بنالیے گئے تو ناصرف معیشت کا پہیہ تیزی کے ساتھ گھومے گا، بلکہ ملک و قوم ترقی اور خوش حالی کی منازل تیزی کے ساتھ طے کریں گے۔ پاکستان قدرت کا خاص تحفہ ہے۔ یہ رب العزت کی عطا کی گئی بیش بہا نعمتوں سے مالا مال ہے۔ یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ یہاں کی زمینوں میں قدرت کے عظیم خزانے مدفن ہیں۔ خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرکے ملکی وسائل پر تکیہ کیا جائے، قرضوں پر انحصار کی روش کو ترک کیا جائے۔ ملکی وسائل کو صحیح معنوں میں بروئے کار لایا جائے۔ معاشی بحالی کے لیے مزید راست فیصلے کیے جائیں تو جلد اس حوالے سے صورت حال بہتر ہوجائے گی۔
امراض کا راستہ روکنے کی ضرورت
پاکستان میں ہر تیسرا بندہ کسی نہ کسی عارضے کا سامنا کر رہا ہے۔ بیماریوں کے پھیلائو کے حوالے سے حالات خاصے موافق ہیں، اس لیے ملک کے طول و عرض میں طرح طرح کے امراض تیزی سے پھیلتے اور پنپتے ہیں۔ یہاں کون سا ایسا مرض ہے جو اپنی مضبوط جڑیں نہ رکھتا ہو۔ ہائی بلڈپریشر، ذیابیطس، جگر، فالج، گردے اور دل کے امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں۔ یہاں صحت کی صورت حال کو قابو کرنے کے لیے ماضی میں سنجیدہ اقدامات کا فقدان ہی رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ امراض کی شدّت بڑھتی ہی چلی گئی۔ پولیو کو ہی لے لیا جائے تو دُنیا بھر کے ممالک اس پر قابو پاچکے ہیں، لیکن ملک کے کسی نہ کسی گوشے سے کوئی نہ کوئی پولیو کیس سامنے آتا رہتا ہے۔ نجی اسپتالوں کی فیسیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ غریب لوگوں کی اکثریت سرکاری اسپتالوں کا ہی رُخ کرتی ہے۔ وہاں انہیں علاج کرانے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔ عوام کو اس کے لیے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے، تب کہیں جاکر اُنہیں صحت کی سہولت میسر آپاتی ہے۔ آبادی کے تناسب سے یہاں سرکاری اسپتالوں کی شدید کمی محسوس ہوتی ہے۔ دُوردراز علاقے کے لوگوں کو علاج کے لیے طویل فاصلے طی کرنے پڑتے ہیں۔ ایسے میں امراض پھیلیں گے نہیں تو اور کیا ہوگا۔ پاکستان میں ایک سال کے دوران متعدد امراض تیزی کے ساتھ پھیلے، اس حوالے سے عالمی ادارۂ صحت نے اعداد و شمار جاری کیے ہیں۔’’جہان پاکستان’’ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے جون 2022سے جون 2023تک پاکستان میں پھیلنے والی بیماریوں کے اعداد و شمار جاری کردیے گئے، سندھ میں قدرتی آفات اور وبائی امراض کے بادل سب سے زیادہ منڈلاتے رہے، ملیریا کے 51ہزار 764کیس رپورٹ ہوئے، خسرہ سے 152ڈسٹرکٹ متاثر 7ہزار 622کیس رپورٹ ہوئے، پاکستان میں سیلاب سے 90ڈسٹرکٹ متاثر، 12ہزار 867لوگ زخمی ہوئے، کووڈ 19 کے مجموعی طور پر 15لاکھ 81ہزار 196کیس رپورٹ ہوئے۔ پاکستان میں سیلاب سے 1ہزار 738اموات ہوئیں، ہیضے سے 10ڈسٹرکٹ متاثر ہوئے۔ خسرہ کے 7622کیس سامنے آئے۔ امراض کا پھیلائو روکنے کے لیے راست اقدامات ناگزیر ہیں۔ حکومت کو صحت کے شعبے کو ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ ملک بھر میں سرکاری اسپتالوں کی تعداد بڑھانی ہوگی۔ دُور دراز علاقوں میں علاج گاہیں قائم کرنی ہوں گی، تاکہ دیہی باشندوں کو علاج کے لیے طویل سفر نہ کرنا پڑے کہ بعض اوقات دورانِ سفر ہی مریض داعیٔ اجل کو لبیک کہہ دیتے ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں صحت کی بہتر سہولتوں کی فراوانی کے لیے اقدامات یقینی بنانے ہوں گے۔ صحت مند زندگی سے متعلق آگہی کا دائرۂ کار وسیع کیا جائے۔ میڈیا بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرے۔ بیماریوں کا راستہ روکنے کے لیے موثر مہمات چلانی ہوں گی۔ ان اقدامات کے ذریعے امراض کا پھیلائو روکنے میں خاصی مدد ملے گی اور صحت کے حوالے سے صورت حال بہتر رُخ اختیار کر سکے گی۔

جواب دیں

Back to top button