تازہ ترینخبریںپاکستان

یونیورسٹیوں میں ہولی منانا ہمارے معاشرتی اقدار کے خلاف ہے، ایچ ای سی کا جامعات کو خط

یونیورسٹیوں میں ہولی منانا ہمارے معاشرتی اقدار کے خلاف ہے، ایچ ای سی کا جامعات کو خط

ہائر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات میں ہولی کا تہوار منانے اعتراض کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس تقریب کے انعقاد پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے صدمے کا اظہار کیا گیا ہے اور اس سے ملکی تشخص پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ گو کہ خط مِن کسی یونیورسٹی کا نام نہیں لیا گیا۔ تاہم یہ خط قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں 8 مارچ کوہوئی ہولی کی تقریب کے تناظر میں لکھا گیا ہے۔ اس خط کے رد عمل میں سوشل میڈیا پر تنقید کا طوفان آگیا ہے۔

کمیشن نے یہ اعتراض ایک خط میں کیا جو ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر شائستہ سہیل نے مختلف تعلیمی اداروں کے وائس چانسلرز اور سربراہان کو تحریر کیا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن علم کے پھیلاؤ کا ذمہ دار ہیں اور نوجوانوں کو مہذب افراد میں تبدیل کرنے کے لیے انتہائی اہم ہے جبکہ ملک کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ماہر افرادی قوت بھی تیار کرتا ہے۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی حتمی ذمہ داری ہے کہ وہ نوجوانوں کو سیکھنے، بالغ اور ذمہ دار شہری بنانے کے لیے تیار کریں جو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے اور قوم کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو سکیں۔

ملک بھر میں سرکاری اور نجی شعبے کے ہائر ایجوکیشن کے اداروں میں ہمارے نوجوانوں کو ہمدرد، سمجھدار اور بہتر افراد کے طور پر تیار کیا جاتا ہے تاکہ انہیں اس طرح سنوارا جا سکے کہ وہ خرابیوں سے بچتے ہوئے زندگی کی راہیں طے کر سکیں۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے خط میں کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اپنی پالیسیاں ہماری اپنی ثقافت، اقدار اور روایات میں شامل تصورات کو مدنظر رکھ کر بنا رہا ہے اور اس طرح سے قوم کے نظریے کو محفوظ رکھا جا رہا ہے۔

مراسلے میں لکھا گیا کہ بدقسمتی سے ایسی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنا افسوسناک ہے جو ہماری سماجی و ثقافتی اقدار سے بالکل مطابقت نہیں رکھتیں اور ملک کے اسلامی تشخص کی تباہی کی منظر کشی کرتی ہیں، ایسی ہی ایک باعث تشویش مثال اس وقت دیکھنے کو ملی جب ہندوؤں کے تہوار ہولی کے موقع پر جوش و خروش کا مظاہرہ کیا گیا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی کے پلیٹ فارم سے بڑے پیمانے پر رپورٹ/ تشہر شدہ واقعہ باعث تشویش ہے اور اس نے ملک کے تشخص کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے خط پر آن لائن صارفین نے غم و غصے کا اظہار کیا اور سندھی صحافی وینگاس نے کہا کہ اسلام آباد کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہولی اور دیوالی کے ہندو تہوار سندھی ثقافت کا حصہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد نہ تو ہماری سندھی زبان کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی ہندو تہواروں کا احترام کرتا ہے۔
سماجی کارکن عمار علی جان نے کہا کہ کمیشن کو پاکستان میں تعلیم کی ابتر حالت پر زیادہ فکر مند ہونا چاہیے۔ان کا کہنا تھا کہ ہماری یونیورسٹیاں سرفہرست ایک ہزار جامعات کی فہرست میں بھی شامل نہیں ہیں، اس کے باوجود ہائر ایجوکیشن کمیشن طلبا کے ہولی منانے سے زیادہ پریشان ہے، اس طرح کی غلط ترجیحات معاشرے میں فکری و اخلاقی زوال کا سبب ہیں۔

جواب دیں

Back to top button