Editorial

انسانی سمگلنگ کا راستہ ہر صورت روکا جائے

ملک عزیز کی تاریخ سانحات اور المیوں سے بھری پڑی ہے۔ گزشتہ دنوں یونان میں کشتی حادثے کے بڑے المیے نے جنم لیا، جس میں 300کے قریب پاکستانی شہری اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ وقت کرتا ہے پرورش برسوں، حادثہ ایک دم نہیں ہوتا، یونان کشتی حادثہ کے حوالے سے بھی وقت برسہا برس سے پرورش کر رہا تھا، یہ ایک دم رونما ہونے والا سانحہ نہیں، اس کے پیچھے لاپروائیوں اور غفلتوں کی طویل تاریخ پنہاں ہے۔ انسانی سمگلرز یہاں عرصہ دراز سے اپنی حشر سامانیاں بپا کر رہے ہیں۔ وہ نوجوانوں کو سنہرے مستقبل کے خواب دِکھاتے ہیں۔ اُن سے بھاری بھر کم رقوم بٹورتے اور پھر انہیں غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھجواتے ہیں۔ اس دوران بعض اوقات حادثات بھی پیش آتے ہیں، جن میں بڑے پیمانے پر لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوجاتے ہیں، ان میں سے بعض بیرون ممالک کے قانون کی گرفت میں آجاتے ہیں اور پوری زندگی وہاں کی جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ انسانی سمگلنگ کا گھنائونا دھندا پچھلی کئی دہائیوں سے تواتر کے ساتھ جاری ہے اور اس کی وجہ سے لاتعداد زندگیاں برباد ہوچکی ہیں، اس کا ابھی تک راستہ نہیں روکا جاسکا ہے اور آج بھی یہ مذموم دھندا پوری شد و مد کے ساتھ جاری ہے۔ اسی گھنائونے دھندے نے 300گھرانوں میں صفِ ماتم بچھا دی ہے۔ یہ اپنے اہل خانہ کے لیے ایسے غم چھوڑ گئے ہیں، جس سے وہ عمر بھر اُبھر نہیں سکیں گے۔ یونان کشتی حادثے میں اتنے بڑے پیمانے پر پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے کے واقعے نے ہر آنکھ کو اشک بار کر دیا ہے، ہر دردمند دل غم و اندوہ کی کیفیت میں ہے۔ ایسی صورت حال آئندہ کبھی نہ ہو، اس کے لیے حکومت کو سنجیدہ بنیادوں پر راست اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف کے اعلان پر یونان میں کشتی ڈوبنے کے حادثے میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے پر پیر کو یوم سوگ منایا گیا، اس موقع پر قومی پرچم سرنگوں رہا اور جاں بحق ہونے والوں کے لیے خصوصی دعائیں کی گئیں۔ وزیراعظم نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے اعلیٰ سطح کی 4رکنی کمیٹی بھی تشکیل دے دی۔ نیشنل پولیس بیورو کے ڈائریکٹر جنرل احسان صادق کمیٹی کے چیئرمین جبکہ وزارت خارجہ کے ایڈیشنل سیکرٹری ( افریقہ) جاوید احمد عمرانی، آزاد جموں و کشمیر پونچھ ریجن کے ڈی آئی جی سردار ظہیر احمد اور وزارت داخلہ کے جوائنٹ سیکرٹری ( ایف آئی اے) فیصل نصیر بھی کمیٹی میں شامل ہیں۔ کمیٹی یونان میں کشتی ڈوبنے کے تمام حقائق جمع کرے گی، انسانی سمگلنگ کے پہلوئوں کی تحقیق ہوگی اور ذمے داروں کا تعین کیا جائے گا، عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لیے تعاون اور اشتراک عمل کی تجاویز دی جائیں گی۔ فوری، درمیانی اور طویل المدتی قانون سازی کا جائزہ لیا جائے گا، ایسے واقعات کا سبب بننے والے افراد، کمپنیوں اور ایجنٹوں کو سخت ترین سزائیں دینے کے لیے قانون سازی ہوگی، کمیٹی ایک ہفتے میں رپورٹ وزیراعظم کو پیش کرے گی، کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں مزید کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ علاوہ ازیں وزیر اعظم نے یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعہ پر انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے لوگوں کو جھانسہ دے کر خطرناک اقدامات پر مجبور کرنے والے انسانی سمگلروں کی نشان دہی کریں۔ انسانی اسمگلنگ جیسے گھنائونے جرم میں ملوث ایجنٹس کے خلاف فوری کریک ڈائون اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر ایف آئی اے نے ڈی آئی جی عالم شنواری کو واقعہ میں جاں بحق ہونے والوں اور زخمیوں کی معلومات و سہولت کیلئے فوکل پرسن مقرر کر دیا ہے۔ چیف سیکرٹری آزاد جموں و کشمیر نے بھی پاکستانی سفارتخانے اور یونانی حکام سے رابطے اور جاں بحق و زخمی ہونے والوں کی معلومات کیلئے فوکل پرسن تعینات کر دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ یونان کے قریب بحیرہ روم میں کشتی الٹنے کے واقعہ میں پاکستانیوں کے جاں بحق ہونے پر دکھ اور رنج ہے، مجھ سمیت پوری قوم کی ہمدردیاں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔ وزیر اعظم نے یونان میں پاکستانی سفارتخانے کو واقعہ میں ریسکیو کئے جانے والے 12پاکستانیوں کی دیکھ بھال کی ہدایت بھی کی ہے۔ گزشتہ روز پورے آزاد کشمیر میں یوم سوگ منایا گیا۔پورے ملک کے عوام سوگ کی کیفیت میں ہیں۔ عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ وزیراعظم کی ہدایت پر تشکیل دی گئی کمیٹی شفاف تحقیقات کرکے اس حادثے کے ذمے داروں کا تعین کرے۔ ان کے خلاف سخت ترین کارروائی عمل میں لائی جائے، انہیں نشانِ عبرت بنایا جائے کہ آئندہ کسی کو انسانی زندگی سے کھلواڑ کرنے کی ہمت نہ ہوسکے۔ دوسری جانب انسانی سمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف کریک ڈائون لائق تحسین ہے۔ کئی افراد قانون کی گرفت میں آچکے ہیں۔ سب سے زیادہ ضروری ہے کہ ان کارروائیوں کو اُس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک ان عناصر کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ ریاست کو ماں جیسی کہا جاتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس موقع پر حکومت متاثرہ خاندانوں کا ہر طرح سے خصوصی خیال رکھے۔ یہ گھرانے اپنے پیاروں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے ہیں۔ ان کے سر پر خصوصی دستِ شفقت رکھا جائے۔ ان کے لیے آسانیاں بہم پہنچائی جائیں، جو ہوسکے ان کی سہولت کے لیے کیا جائے۔ دوسری جانب ایسے اقدامات کیے جائیں کہ انسانی اسمگلنگ کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے متروک ہوجائے۔ اس کا مکمل راستہ روکا جائے۔ اس حوالے سے راست اقدامات کیے جائیں، اس ضمن میں تمام تر راستے مسدود کیے جائیں کہ انسانی اسمگلنگ کے لیے ذرا بھی گنجائش نہ بچے۔ نوجوانوں کو بھی چاہیے کہ وہ بیرون ملک جانا چاہتے ہیں تو اُس کے لیے جائز اور قانونی راستہ اختیار کریں۔ سنہرے مستقبل کی آس میں اپنی زندگیوں کو یوں بے حسوں کے سپرد نہ کریں۔ اپنی زندگی کی قدر کریں۔ وطن عزیز میں بھی باعزت زندگی گزارنے کے وسیع مواقع ہیں۔ اپنے ملک کی ترقی و خوش حالی میں اپنا بھرپور حصّہ ڈالیں۔

دہشت گردوں کیخلاف بڑی کامیابی

وطن عزیز سانحۂ نائن الیون کے بعد 15سال تک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا، کوئی دن ایسا نہیں جاتا تھا، جب ملک کے کسی گوشے میں کوئی دہشت گردی کا واقعہ رونما نہیں ہوتا ہو، عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا، عبادت گاہیں تک دہشت گرد کارروائیوں سے محفوظ نہ تھیں۔ پندرہ برس تک جاری رہنے والی اس دہشت گردی کے باعث 80ہزار افراد اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے، جن میں فوجی افسران و اہلکار بھی شامل تھے۔ سانحۂ اے پی ایس کے بعد دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائیوں کا آغاز ہوا۔ ان کے خلاف آپریشنز شروع کیے گئے۔ دہشت گردوں کو چُن چُن کر اُن کی کمین گاہوں میں مارا گیا، کتنے ہی گرفتار ہوئے اور جو بچے اُنہوں نے یہاں سے فرار میں ہی اپنی بقا سمجھی۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی۔ حالات نارمل سطح پر آگئے۔ کچھ سال امن رہا، اب پھر پچھلے کچھ مہینوں سے دہشت گردی کا عفریت سر اُٹھاتا دِکھائی دے رہا ہے۔ خاص طور پر کے پی کے اور بلوچستان صوبے اس میں زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ شرپسند عناصر کی جانب سے فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سیکیورٹی فورسز ملک کو ان مذموم عناصر سے پاک کرنے کے لیے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز ایسی ہی ایک کارروائی میں تین دہشت گردوں کو اُن کے انجام تک پہنچایا گیا ہے۔ اخباری اطلاع کے مطابق دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کو بڑی کامیابی ملی ہے، درہ آدم خیل میں انتہائی مطلوب دہشت گرد کمانڈر ظفر عرف ظفری اپنے دو ساتھیوں سمیت سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں جہنم واصل ہوگیا۔ 16اور 17جون کی رات سیکیورٹی فورسز نے انتہائی جامع منصوبہ بندی کے تحت خفیہ معلومات کی بنیاد پر کیے گئے آپریشن میں ٹی ٹی پی کے ایک انتہائی مطلوب دہشت گرد کمانڈر ظفر علی خان عرف ظفری ولد غلام صدیق کو درہ آدم خیل میں 2دیگر دہشت گردوں سمیت مار دیا۔ اس کے دو ساتھیوں کی شناخت حسن خان ولد محمد عمران ( ساکن بازی خیل، درہ آدم خیل) اور انس عرف علی (ساکن ننگرہار افغانستان) کے ناموں سے ہوئی۔ ہلاک دہشت گرد ظفری درہ آدم خیل کے گائوں ملان کا رہائشی تھا اور 22مئی کو افغانستان کے صوبے ننگرہار سے پشاور پہنچا تھا۔ دہشت گرد ظفری تحریک طالبان افغانستان کا سابق رکن بھی رہا اور پاکستان میں 26گرینیڈ حملوں میں ملوث رہا۔ کمانڈر ظفری سیکیورٹی فورسز، کوئلے کے ٹھیکے داروں، تاجروں اور بااثر افراد کے خلاف درجنوں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث رہا اور اب تک بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی مد میں 100ملین سے زیادہ کی رقم بھی ہتھیا چکا تھا۔ ہلاک دہشت گرد حسن خان اسنائپنگ اور گرینیڈ حملوں کا ماہر تھا، یہ 2019سے 2021تک تحریک طالبان افغانستان کا حصّہ رہا، یہ 2022میں طارق گیدڑ گروپ میں شامل ہوگیا، ہلاک دہشت گرد انس2018سے ایک ماہر سنائپر کی حیثیت سے ضلع شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گرد حملوں میں ملوث رہا۔ بلاشبہ یہ بڑی کامیابی ہے، اس پر جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، ان شاء اللہ جلد ان کے خلاف عظیم کامیابیاں نصیب ہوں گی اور ملک دہشت گردی کے عفریت سے مکمل پاک ہوجائے گا۔

جواب دیں

Back to top button