
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی مبینہ آڈیو لیکس پر خصوصی کمیٹی میں طلبی کے خلاف کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ’کیا آئین اور قانون شہریوں کی کالز کی سرویلنس اور ریکارڈنگ کی اجازت دیتا ہے؟غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی کالز کی ذمہ داری کس پر عائد ہو گی۔‘
عدالت نے استفسار کیا کہ ’کون سی اتھارٹی یا ایجنسی کس میکنزم کے تحت کالزریکارڈ کر سکتی ہے اور بتایا جائے کہ آڈیو ریکارڈنگ کا غلط استعمال روکنے کے کیا سیف گارڈز ہیں؟‘
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’ معاملہ سپریم کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے، جو سوالات سپریم کورٹ میں زیر بحث ہیں ان پر فیصلے کا انتظار کر لیا جائے۔ وفاقی حکومت نے مبینہ آڈیو لیکس کے معاملے پر کمیشن قائم کیا ہے۔ عدالت نے جو سوالات اٹھائے وہ سپریم کورٹ کے سامنے بھی ہیں ۔سپریم کورٹ نے بھی ان سوالات پر فیصلہ سنانا ہے۔‘
جسٹس بابر ستار کا کہنا تھا کہ ’آپ ہمارے پانچ سولات پر ہی معاونت کریں۔ ہو سکتا ہے ہم کوئی فیصلہ دیں تو وہ سپریم کورٹ کے لیے معاونت ہو۔‘
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا ’یہ پاکستان کے 25 کروڑ عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے، حکومت چیف جسٹس کی مشاورت کے بغیر کیسے جوڈیشل کمیشن بنا سکتی ہے؟ حکومت کو چاہئے تھا کہ چیف جسٹس سے مشاورت کرتی اور وہ ججز نامزد کرتے۔‘ عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا ’آپ کو عدالتی سوالات کے جواب دینے میں کتنا وقت چاہیے ہو گا؟ آپ کو چار ہفتے کا ٹائم دیتے ہیں۔‘
سابق چیف جسٹس کے بیٹے کی خصوصی کمیٹی میں طلبی کے خلاف حکم امتناع میں توسیع کی درخواست پر سماعت 16 اگست تک ملتوی کر دی گئی۔
واضح رہے کہ جسٹس بابر ستار نے آڈیو ریکارڈنگ کے معاملے پر معاونت کے لیے بیرسٹر اعتزاز احسن، میاں رضا ربانی، مخدوم علی خان اور بیرسٹر محسن شاہنواز رانجھا کو طلب کیا تھا۔ آج سماعت میں عدالتی معاونین میں صرف اٹارنی جنرل اور چوہدری اعتزاز احسن عدالت میں پیش ہوئے ۔







