یونان کشتی حادثہ، عظیم سانحہ

انسانی اسمگلنگ ایسا سنگین مسئلہ ہے، اس کے باعث کئی زندگیاں برباد ہوچکی ہیں۔ گزشتہ روز اس کے باعث ملک عزیز کے لیے ایسے سانحے نے جنم لیا ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ اس کی ہولناک یادیں ذہن سے محو نہیں ہوسکیں گی، یونان میں کشتی الٹنے کے حادثے میں لاپتہ 298پاکستانیوں کے گھرانوں میں صف ماتم بچھی ہے۔ ہر سو غم و اندوہ کی کیفیت ہے۔ ہر آنکھ اشک بار ہے۔ صرف 12پاکستانیوں کو بچایا جاسکا ہے، باقی سب لاپتہ ہیں۔ یونان کی حکومت نے ریسکیو آپریشن بند کرکے اس کشتی حادثے میں لاپتا تمام افراد کو مُردہ قرار دے دیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ 500لوگ لاپتہ ہیں، جن کے بچنے کے کوئی آثار نہیں۔ جہان پاکستان میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق یونان کی حکومت نے کشتی حادثے کے حوالے سے ریسکیو آپریشن بند کر کے تمام لاپتہ افراد کو مردہ قرار دے دیا۔ لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان میں حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں 310پاکستانیوں سمیت 750افراد سوار تھے، حادثے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے 79افراد کی لاشیں مل گئی ہیں جبکہ 104مسافروں کو بچا لیا گیا، جن میں 12پاکستانی بھی شامل ہیں۔ رپورٹس میں بتایا گیا کہ کشتی پچھلے کئی دن سے سمندر کے اندر خراب تھی، کشتی کو ٹیک کرنے کے بجائے چھوٹی کشتی سے کھینچا گیا جس سے وہ الٹ گئی۔ یونانی حکومت کی طرف سے ریسکیو آپریشن چار روز تک جاری رہا، جس میں کسی بھی تارکین وطن کو آخری دو دن میں ریسکیو نہیں کیا جاسکا۔ ہلاک ہونے والے کئی افراد کی شناخت ڈی این اے کے ذریعے ہی ممکن ہوگی۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا کہ یونان میں تارکین وطن کی کشتی الٹنے کے بعد500سے زائد افراد تاحال لاپتا ہیں۔ ترجمان جیریمی لارینس کا کہنا تھا کہ افسوس ناک واقعہ میں79افراد ہلاک ہوئے جب کہ بچوں اور عورتوں سمیت 500سے زائد افراد کی بڑی تعداد اب بھی لاپتہ ہے۔ دوسری جانب یونانی حکام نے کوسٹ گارڈز کی جانب سے تارکین وطن کی کشتی کو رسی سے باندھنے کے باعث کشتی ڈوبنے سے متعلق خبروں کی تردید کردی ہے تاہم کشتی پر سوار زندہ بچ جانے والے ایک تارک وطن نے بتایا تھا کہ کوسٹ گارڈز کے اہلکاروں کی جانب سے تارکین وطن کی کشتی کو بائیں جانب سے رسی باندھی گئی تھی، جس کے بعد اچانک سے کشتی ایک جانب پلٹ گئی تھی۔ یونان کے نگراں وزیراعظم لونیس سارماس نے کشتی ڈوبنے کے حوالے سے حقائق اور تکنیکی پہلوئوں کو جاننے کیلئے تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جلد ہی واقعہ کے ذمے داروں کا تعین کرلیا جائے گا۔ دوسری جانب یونان میں پاکستانی سفارت خانہ کے حکام نے کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے12پاکستانیوں سے ملاقات کی ہے۔ یونانی حکام نے جن پاکستانیوں کو بچایا ہے ان میں سے محمد عدنان بشیر اور حسیب الرحمان کا تعلق ضلع کوٹلی سے ہے، باقی افراد میں محمد حمزہ ( گوجرانوالہ)، عظمت خان ( گجرات)، محمد سنی ( شیخوپورہ)، زاہد اکبر ( شیخوپورہ)، مہتاب علی ( منڈی بہائوالدین) ، رانا حسنین ( سیالکوٹ) ، عثمان صدیقی ( گجرات)، ذیشان سرور ( گوجرانوالہ) عرفان احمد اور عمران آرائیں ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ حادثے کا شکار پاکستانیوں میں 135کا تعلق آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں
سے ہے جن میں 43نوجوان بھی شامل ہیں۔ ڈپٹی کمشنر کوٹلی آزاد کشمیر کی جانب سے حادثے میں جاں بحق ہونے والے بدقسمت نوجوانوں کے نام جاری کردئیے گئے جس کے مطابق مرنے والوں میں محمد سنیال ولد محبوب، عبدالرئوف ولد محمد حسین، محمد شہباز، رضوان الحق، شاہد سرور، محمد رئیس، ارشد، خادم حسین، حمید، محمد نوید، ناصر اقبال، آزاد، نبیل، آکاش، انعام، یاسر حسین عمران، عبدالسلام، ساجد اسلم، عبد الجبار، توقیر، اویس، ساجد یوسف، سمیر، شمریز گلریز، یاسر اور علی رضا بھی شامل ہیں۔ ادھر وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ ابھی تک مرنے والوں میں پاکستانی شہریوں کی تعداد اور شناخت کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے ۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ ہمارا مشن78برآمد شدہ لاشوں کی شناخت کے عمل میں یونانی حکام کے ساتھ بھی رابطے میں ہے۔ یہ شناختی عمل قریبی خاندان کے افراد کے ساتھ ڈی این اے میچنگ کے ذریعے ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمت کشتی پر سوار ممکنہ مسافروں کے اہل خانہ سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ تصدیق کے مقاصد کے لیے یونان میں پاکستان مشن سے24؍7ہیلپ لائن نمبرز پر رابطہ کریں۔ ان سے یہ بھی درخواست ہے کہ وہ مستند لیبارٹریوں سے ڈی این اے رپورٹس اور مسافر کی شناختی دستاویزات info@pakistanembassy.grپر شیئر کریں۔ دوسری جانب 12پاکستانی شہریوں نے ایف آئی اے کو اپنے ایجنٹوں کے نام بھجوا دئیے ہیں، جس پر ایف آئی اے نے ایجنٹوں کی گرفتاری کیلئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ یونان کشتی حادثے کے معاملے پر ایف آئی اے نے چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی۔ تمام ممبران ایف آئی اے کے مختلف اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکلز میں تعینات ہیں۔ کمیٹی ارکان کے موبائل نمبرز اور ای میل ایڈریس بھی شیئر کر دیئے گئے، دوسری طرف میرپور آزاد کشمیر کے ڈی آئی جی ڈاکٹر خالد چوہان نے کہا ہے کہ انسانی سمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک کے خلاف گرینڈ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ غیر قانونی طریقے سے نوجوانوں کو یورپ بھیجنے والے9ایجنٹ گرفتار کرلئے گئے ہیں، یونان کشتی حادثے میں کھوئی رٹہ کے24سے26لوگ شامل تھے۔ گرفتار ہونے والے9ایجنٹوں کے خلاف تھانہ کھوئی رٹہ میں مقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ کشتی حادثے میں ملوث ایک انسانی اسمگلر کو کراچی ایئرپورٹ پر گرفتار کرلیا گیا۔ ترجمان ایف آئی اے کے مطابق ملزم آذربائیجان فرار ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ ملزم نے متعدد افراد کو غیر قانونی طریقے سے لیبیا بھجوایا تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے یونان کے قریب کشتی کے حادثے میں جاں بحق پاکستانیوں کے لواحقین سے اظہار افسوس کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ میری دعائیں ان خاندانوں کے ساتھ ہیں جن کے پیارے اس حادثے میں جاں بحق ہوئے، بحیرہ احمر میں یونان کے ساحل کے قریب کشتی کا ڈوبنا ایک بڑا سانحہ ہے۔ بلاشبہ یہ کشتی حادثہ عظیم سانحہ ہے، اس سے جڑی تلخ یادیں کبھی بھلائی نہیں جاسکیں گی۔ ان مرنے والوں کی زندگیوں کو واپس نہیں لایا جاسکتا، لیکن ایسے اقدامات ضرور کیے جاسکتے ہیں کہ آئندہ کوئی اس قسم کا سانحہ رونما نہ ہوسکے۔ غیر قانونی انسانی اسمگلنگ کا راستہ روکا جائے۔ اپنے نوجوانوں کی زندگیوں کو تحفظ دینے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ ضروری ہے کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث اور اس واقعے کے ذمے دار تمام عناصر کا خاتمہ کیا جائے۔ یہ معاشرے کے لیے ناسور کی حیثیت رکھتے ہیں اور نہ جانے کتنے اچھے مستقبل کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرچکے ہیں۔ ان کے خلاف سخت کریک ڈائون ناگزیر ہے۔ پورے ملک میں ان کے نیٹ ورکس کے خلاف راست کارروائیاں کی جائیں، ان کو جڑ سے اُکھاڑ کر ملک سے ان کا خاتمہ کرکے کیفر کردار تک ہر صورت پہنچایا جائے۔ پورا ملک اس سانحہ پر غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ مرنے والے اپنے لواحقین کے لیے ایسا دُکھ چھوڑ گئے ہیں، جن سے وہ زندگی بھر اُبھر نہیں سکیں گے۔
قحط سے بچائو کا عالمی دن اور اس کے تقاضے
درختوں کی کٹائی کرکے ہمارے ہاں اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کی روش عرصہ دراز سے اختیار کی جارہی ہے، اسی طرح جنگلات کو بھی وقت گزرنے کے ساتھ اجاڑنے کا عمل جاری رہا، ملک عزیز میں جنگلات اب محض چند فیصد حصّے پر محیط رہ گئے ہیں، حالانکہ ان کو 20؍25 فیصد حصّے پر مشتمل ہونا چاہیے۔ اس صورت حال کے باعث بڑے پیمانے پر موسمیاتی تغیر رونما ہورہے اور اب ماحول انسان دشمنی پر گامزن دِکھائی دیتا ہے۔ شدید گرمی اور سردی کے موسموں سے ملک عزیز کے عوام کو واسطہ پڑرہا ہے۔ سردی ہوتی ہے تو ایسی کڑاکے کی کہ برداشت سے باہر، اسی طرح جب گرمی آتی ہے تو سورج آگ برساتا نظر آتا ہے، لوگ چکراتے دِکھائی دیتے ہیں۔ اس سے خشک سالی اور قحط کی صورت حال کو بڑھاوا ملتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی زرعی پیداوار میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی واقع ہورہی ہے، جو اگلے وقتوں میں سنگین حالات کی غمازی کرتی ہے۔ زراعت کے لیے آبی قلت اور دیگر عوامل کے باعث تیزی سے زمینیں بنجر ہورہی ہیں۔ گزشتہ روز پاکستان سمیت دنیا بھر میں خشک سالی اور قحط سے بچائو کا عالمی دن منایا گیا۔ صحرا زدگی ایک ایسا عمل ہے جو زمین کو آہستہ آہستہ خشک اور بنجر بنا دیتا ہے، ایک وقت ایسا آتا ہے کہ یہ زمین مکمل طور پر صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جنگلات کو بڑے پیمانے پر کاٹنا اور زراعت میں ناقص کیمیائی ادویہ کا استعمال زمین کی زرخیزی کو ختم کرکے اسے بنجر کردیتا ہے، براعظم افریقا اس وقت سب سے زیادہ خشک سالی سے متاثر ہے۔ وطن عزیز میں بھی اس حوالے سے صورت حال موافق قرار نہیں دی جاسکتی۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 25 کروڑ افراد صحرا زدگی کے نقصانات سے براہ راست متاثر ہورہے ہیں جبکہ 100ممالک اور ایک ارب افراد خشک سالی کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر ایک منٹ میں 23 ایکڑ زمین صحرا زدگی کا شکار ہوکر بنجر ہورہی ہے۔ بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا کے مختلف خطوں میں جاری خانہ جنگیاں بھی خشک سالی کی ایک بڑی وجہ ہیں، جو کسی علاقے کو پہلے قحط زدہ بناتی ہیں، پھر زراعت کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ بالآخر وہ زمین صحرا میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں سے بھی پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی زمین کو خشک کررہی ہے، ماہرین کے مطابق زمین پر زیادہ سے زیادہ درخت اُگاکر ہی صحرا زدگی سے بچائو ممکن ہے۔ دُنیا میں بسنے والے ہی بعض لوگ اس کے ماحول کو بُری طرح گزند پہنچا رہے ہیں۔ اس ماحول کو انسان دشمنی میں آخری حد تک پہنچانے کے لیے مذموم طور پر کوشاں ہیں۔ خدارا! خود پر اور دُنیا کے 8 ارب انسانوں پر رحم کریں۔ یہ عالمی دن تقاضا کرتا ہے کہ ماحول کو انسان دوست بنائیں۔ زیادہ سے زیادہ پودے اور درخت لگائیں۔ اُن کی باقاعدگی کے ساتھ آبیاری کریں، اگلے وقتوں میں قحط اور خشک سالی سے بچنے کے لیے ہر فرد ذمے داری کا ثبوت دے۔ دھرتی ماں کا قرض ادا کرے اور اُسے بنجر ہونے سے بچانے میں اپنا کردار ادا کرے۔







