ملکی ترقی کا سفر جاری رہنا چاہیے

پچھلے پانچ سال کے دوران ملک میں ترقی کا سفر رُکا رہا۔ سابق حکومت کی ناقص پالیسیوں نے ملکی معیشت کو ناصرف گزند پہنچائی بلکہ مہنگائی کا ایسا بدترین طوفان آیا، جس نے غریبوں کے لیے زیست کو بدترین عذاب بناڈالا۔ سابق دور میں ملکی معیشت کے ساتھ وہ کھلواڑ کیے گئے، جن کی پچھلے 75سالہ تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ ناقص حکمت عملیوں سے نظام حکومت چلانے کی کوشش کی گئی، جس نے وقت گزرنے کے ساتھ حالات کو مزید خراب کیا۔ پاکستانی روپے کو بدترین بے وقعتی سے دوچار کیا گیا۔ امریکی ڈالر اُسے بُری طرح چت کرتا دِکھائی دیا۔ دوست ممالک کے ساتھ تعلقات کو خراب کیا گیا۔ ترقی کے سفر کو جان بوجھ کر روکا گیا۔ سی پیک پر کام کی رفتار کو سست کیا گیا، یا اس عظیم اور گیم چینجر منصوبے کو ترک کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ ملک کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششیں چار سال تک تسلسل سے جاری رکھی گئیں۔ دوسری طرف گرانی میں ہوش رُبا اضافوں نے غریب اور متوسط طبقے کی کمر توڑ کے رکھ دی۔ آٹا، چینی، دال، چاول، پتی، گوشت، دودھ، دہی، مسالے سب ہی بے پناہ مہنگے ہوگئے۔ پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے نرخوں کو بلند ترین سطح پر پہنچادیا گیا۔ غریبوں کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا ازحد دُشوار گزار بنادیا گیا۔ معیشت کے لیے حالات کو بد سے بدترین بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ متوسط طبقے کو غربت کی سطح سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہوش رُبا گرانی کی موسلادھار بارش غریبوں کے آشیانوں پر برستی اور اُنہیں نقصان پہنچاتی رہی۔ المیہ کہ لوگوں کی آمدن وہی پُرانی رہی، لیکن اخراجات تین گنا سے زائد تجاوز کرگئے۔ ان حالات میں ملکی عوام زندگی بسر کررہے ہیں۔ موجودہ اتحادی حکومت جب سے برسراقتدار آئی ہے، وہ حالات کو بہتری کی جانب لے جانے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے اُس نے چند بڑے اقدامات بھی کیے ہیں، جن کے مثبت اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں اور ان کے ثمرات سے ملک و قوم مستفید ہوں گے۔ روس سے سستے تیل اور ایل پی جی کی آمد اس ضمن میں بڑا سنگِ میل ہے، جو حکومت کی راست کوششوں کی بدولت عبور ہوسکا ہے۔ گزشتہ دنوں اتحادی حکومت نے بجٹ پیش کیا، جسے غریب اور کاروبار دوست بجٹ قرار دیا جارہا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 35فیصد کا بڑا اضافہ کیا گیا۔ کم از کم تنخواہ 32ہزار کردی گئی۔ اور بھی بڑے فیصلے دیکھنے میں آئے۔ اسی ضمن میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بجٹ 2023۔24 نوجوانوں کی ترقی، کاروبار اور روزگار کا تاریخی بجٹ ہے، مایوسیوں کو مٹانا، ملک و قوم کی تعمیر، ترقی اور خوشحالی سے نیا اعتماد اور امید بحال کرنا ہوگی۔ اپنے بیان میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال پاکستان اور عوام کی آمدن بڑھانے کا سال ثابت ہوگا، اِن شاء اللہ۔ صنعت، زراعت، آئی ٹی، توانائی کے شعبوں میں تیزی سے ترقی اور معاشی استحکام کا بجٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو روزگار مانگنے والے کے بجائے روزگار دینے والا کاروباری بنانے کے مواقع شامل ہیں، نوجوان ملک کا مستقبل ہیں اور نوجوانوں کا مستقبل سنوارنا ہمیشہ کی طرح میری اولین ترجیح ہے، آئی ٹی، زراعت اور صنعت میں کاروبار کے آغاز سے نوجوانوں کو پاکستان کی ترقی کے معمار بنانا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ، چھوٹے اور رعایتی قرض دے رہے ہیں، نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے بجٹ میں آئی ٹی کاروبار میں ٹیکس کی چھوٹ دی ہے، 2ہزار ارب روپے سے زائد کسان پیکیج سے زراعت اور کسان کی بہتری کا سفر مزید تیز ہوگا۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ بجٹ 24۔2023کے ذریعے زرعی شعبے کیلئے مراعات جاری رکھیں گے، ان اقدامات سے غذائی تحفظ حاصل ہوگا، نوجوانوں کو زرعی ترقی میں حصہ دار بنارہے ہیں، کسانوں، نوجوانوں کو زرعی اور کاروباری قرضہ جات سے کسان، نوجوان اور پاکستان خوشحال ہوں گے۔ مزید برآں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ گزشتہ حکومت نے خیبر پختونخوا کی ترقی کو یکسر نظرانداز کیا، ہم خیبر پختونخوا کو ترقی اور امن کا گہوارہ بناکر رہیں گے۔ وزیراعظم سے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والی مسلم لیگی قیادت نے ملاقات کی۔ بلاشبہ عوام کی آمدن بڑھانا ناگزیر ہے اور وزیراعظم اگلے برس کو اُن کی آمدن بڑھانے کا سال قرار دے رہے ہیں۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں نوجوانوں کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ پاکستان کی آبادی کا 60فیصد سے زائد حصّہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداد فارغ التحصیل ہونے کے بعد بے روزگاری ایسے مصائب کا سامنا کرتی ہے۔ اُن کو کامیاب اور کارآمد بنانے کے لیے حکومت راست اقدامات کر رہی ہے۔ نوجوانوں کی فلاح و بہبود اور روزگار کے لیے حکومتی کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسی ضمن میں وزیراعظم میاں شہباز شریف نے انتہائی مفید گفتگو کی ہے۔ نوجوانوں کو ایک لاکھ لیپ ٹاپ دئیے جارہے ہیں، جو بلاشبہ موجودہ حکومت کا بڑا قدم ہے۔ اس سے نوجوان مستفید ہوکر اپنے اہل خانہ کا معاشی بوجھ اُٹھانے میں ممدومعاون ثابت ہوں گے۔ نوجوانوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اُنہیں رعایتی قرض دئیے جارہے ہیں، تاکہ وہ باعزت روزگار کما سکیں۔ آئی ٹی شعبے میں ٹیکس چھوٹ یقیناً حکومت کا احسن اقدام قرار پاتا ہے۔ دیکھا جائے تو پاکستان زرعی ملک ہے اور اُس کی مجموعی قومی پیداوار کا لگ بھگ 20فیصد حصّہ زراعت کے شعبے سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ حکومت نے اس شعبے کو اولیت دی اور اس کے لیے 2ہزار ارب روپے کا کسان پیکیج متعارف کرایا، جس سے کاشت کاروں کو نا صرف آسانیاں میسر آئیں گی، بلکہ وہ ملکی ترقی میں اپنا بھرپور حصّہ بھی ڈالیں گے۔ مانا ملک اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے، لیکن ترقی کے سفر کی جانب نیک نیتی، خلوص، ایمان داری کے ساتھ پیش قدمی کو جاری رکھا گیا تو ضرور اس کے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔
خون عطیہ کرنے کا عالمی دن
خون عطیہ کرنے کا عالمی دن گزشتہ روز پاکستان سمیت دُنیا بھر میں منایا گیا۔ یہ یقیناً خوش کُن امر ہے کہ وطن عزیز میں ہر سال خون کے عطیات کے ذریعے لاکھوں انسانی زندگیوں کو بچایا جاتا ہے۔ ماہرین طب خون عطیہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ بلڈ ڈونیشن ڈے منانے کا بنیادی مقصد لوگوں میں خون دینے کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے، تاکہ اس کارخیر میں زیادہ سے زیادہ لوگ حصّہ لیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں صحت کی مجموعی صورت حال انتہائی ناقص ہے۔ ہمارے ہاں مہلک امراض تیزی سے پنپ رہے ہیں۔ صحت کے نام پر بجٹ میں سے بہت کم حصّہ مختص کیا جاتا ہے۔ سنگین بیماریوں میں مبتلا افراد کی تعداد تیزی سے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ صورت حال اس حد تک سنگین ہوگئی ہے کہ ہمارے ہاں تیسرا فرد کسی نہ کسی بیماری سے دوچار ہے۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ ایسے حالات میں بھی چپ سادھے بیٹھا رہا جاتا اور عوام کی صحت میں بہتری کے لیے اقدامات بروئے کار نہیں لائے جاتے۔دوسری جانب بلڈ ڈونیشن ڈے کے تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں آگہی نہ ہونے کے باعث تھیلیسمیا کے مریضوں کی تعداد میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہورہا ہے۔ اس میں مبتلا مریضوں کے جسموں میں کچھ وقفے بعد نیا خون چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ سنگین حادثات کے نتیجے میں زخمی ہونے والوں اور جن لوگوں کی پیچیدہ سرجری ہو، اُنہیں خون کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اگر بالفرض مریض کو بروقت خون نہ مل پائے تو اُس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ ایسے حالات میں کسی انسان کو خون کا عطیہ کرنا اسے نئی زندگی دینے کے برابر ہے۔ اسلام میں ایک انسان کی زندگی بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اسی کے پیش نظر پاکستان کے طول و عرض میں انسان دوست لوگ بغیر کسی لالچ کے اپنا خون دوسروں کو عطیہ کرتے ہیں اور اُن کی زندگیاں بچاتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق ہر انسان کے بدن میں تین بوتل اضافی خون کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ ہر تندرست اور جواں فرد ہر تیسرے مہینے خون کی ایک بوتل عطیہ میں دے سکتا ہے، جس سے اس کی صحت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اس کا کولیسٹرول بھی قابو میں رہتا ہے۔ تین ماہ کے اندر ہی نیا خون ذخیرے میں آجاتا ہے۔ لیکن انتقال خون سے پہلے خون کی مکمل جانچ پڑتال کرنا ضروری ہے، کیوں کہ بہت سی مہلک بیماریاں جیسے ایڈز اور ہیپاٹائٹس انتقال خون کی وجہ سے ایک سے دوسرے فرد تک منتقل ہوتے ہیں۔ بلڈ ڈونیشن ڈے تقاضا کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں صحت مند افراد خون کے عطیات دے کر انسانیت کی فلاح کے لیے خدمات سرانجام دیں تو لاکھوں زندگیوں کو بچانے میں مدد مل سکتی ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ خون عطیہ کرنے کے حوالے سے اپنی ذمے داری کا ثبوت دے کر انسانی زندگیوں کو بچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔





