Column

نئی سیاسی صف بندی .. یاور عباس

یاور عباس

قومی اسمبلی سمیت سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں اگست میں اپنی آئینی مدت پوری کر لیں گی جس میں صرف دو ماہ باقی رہ گئے تاہم اگر حکومتیں چاہیں تو جون کے بجٹ کے بعد بھی الیکشن کا اعلان کر سکتی ہیں، اگر اسمبلیاں آئینی مدت پوری کرتی ہیں تو پھر اکتوبر میں الیکشن ہونا ہے جو موجودہ حالات میں ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ جس طرح پنجاب اور کے پی کے میں آئینی طریقے سے اسمبلیاں ختم کردی گئیں تاکہ 90روز میں الیکشن ہوسکیں مگر دونوں صوبوں میں حکومت انتخابات نہ کروانے پر ڈٹ گئی اور عدالتی احکامات کی بھی پروا کیے بغیر انتخابات 90روز کی بجائے 130دنوں میں بھی نہیں کروائے گئے اور نہ ہی کوئی انتخابی عمل شروع ہونے کے امکانات نظر آرہے ، دو صوبو ں میں انتخابات کے معاملے پر حکومت اور عدلیہ کے درمیان محاذ آرائی بڑھ چکی ہے ، حکومت کو سب سے بڑا خطرہ یہی ہوتاہے کہ عدالتی حکم نہ ماننے پر توہین عدالت کا سامنا کرنا پڑے گا ، ماضی میں توہین عدالت پر پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو نااہلی کا سامنا کرنا پڑا ، عمران خاں کو بھی تحریک عدم اعتماد کے موقع پر رات 12عدالتیں نہ کھلتی اور توہین عدالت کا ڈر نہ ہوتا تو آج وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت نہ ہوتی ۔ توہین عدالت کے مقابلے میں حکومت نے توہین پارلیمنٹ بل پاس کر لیا ہے اور ججز سمیت اعلیٰ افسران کو پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے پیش ہونے اور انہیں سزائیں سنانے کا قانون پاس کیا اگرچہ یہ قانون عدالت میں زیر سماعت ہے تاہم ایسے حالات میں جنرل انتخابات کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات موجود ہیں ۔75سالہ تاریخ میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں سیاسی جماعتیں ان پر تحفظات کا اظہار کرتی رہیں ،حکومتیں بنانے اور سیاسی جماعتوں کا حجم بڑھانے اور کم کرنے کی روایت کوئی نئی نہیں بلکہ بہت پرانی ہیں شاید یہی وجہ ہے کہ بہت ساری سیاسی جماعتیں عوام سے رابطہ کرنے کی بجائے کنگ میکرز سے رابطہ کرتے ہیں اور اقتدار میں اپنا حصہ طے کر لیتے ہیں ۔ انتخابات تو ایک رسمی کارروائی سمجھے جاتے ہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں پیپلز پارٹی کا عروج دنیا نے دیکھا اور پھر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد اس کی پارٹی کی حیثیت سب نے دیکھی، کیا سے کیا رہ گئی ، دوتہائی اکثریت حاصل کرنے والی جماعت مسلم لیگ ن کو جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سے ہٹایا تو پھر اس کے بعد پارٹی کی کیا حیثیت رہ گئی سب تتر بتر ہوگئے، مسلم لیگ ق نے جنم لیا اور بہت سارے نواز لیگی سیاستدان جوق در جوق ق لیگ میں شامل ہوتے گئے۔ موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی عمران خاں کی قیادت میں ملک کی مقبول اور سب سے بڑی جماعت محض ایک ہفتہ میں اپنے تمام لیڈران سے محروم ہوگئی، عمران خاں اور ان کے دیگر ساتھی ابھی زیر عتاب ہیں دیکھتے ہیں وہ اس گھمبیر صورتحال سے کیسے نکلتے ہیں اور اپنی پارٹی اور ووٹ بینک کو کس حد تک سنبھال پائیں گے اور الیکشن بھی کروا سکیں گے یا پھر نہیں ۔ مسلم لیگ ن کے میاں نواز شریف، پیپلز پارٹی کی محترمہ بے نظیر بھٹو پارٹیاں بدل کر حکومتوں میں آنے والوں کو لوٹے قرار دے چکے ہیں مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ وقت آنے پر پھر انہی لوٹوں کو اپنے نظریاتی ورکروں پر ترجیح دیتے ہوئے نہ صرف پارٹی میں شامل کرتے ہیں بلکہ انہیں اعلیٰ عہدے اور وزارتیں بھی دیتے ہیں2018ء کے انتخابات میں جب عمران خاں الیکٹ ایبلز کو دھڑا دھڑا بھرتی کر رہا تھا تو پارٹی کے نظریاتی کارکنوں ، دانشوروں نے عمران خاں کے اس فیصلے سے بھرپور اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ وقت آنے پر یہ آپ کا ساتھ چھوڑ دینگے اور پھر سب نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا۔ اب پاکستان تحریک انصاف کے عمران خاں بھی پارٹی بدلنے والے لوٹوں کے خلاف آواز بلند کریںگے مگر انہی لوٹوں کو پیپلز پارٹی ، ن لیگ سر آنکھوں پر بٹھانے کے لیے تیار ہوجائے گی۔ سیاسی جماعتیں کی اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے مگر گزشتہ برس تحریک عدم اعتماد کے موقع پر تحریک انصاف سے اتحاد ختم کرنے پر ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق کو سب سے زیادہ عوامی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، کراچی میں ہونے والے انتخابات میں ایم کیو ایم
کو سمجھ آگئی کہ ووٹ بینک ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، مجبوراً ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں نے اتحاد کر لیا اور اب اس کا فیصلہ عوام کریںگے کہ ایم کیو ایم ماضی کی طرح کراچی کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت بن پاتی ہے یا پھر نہیں ۔ پنجاب میں مسلم لیگ ق جو کہ چودھری برادران کی پارٹی تھی پرویز مشرف دور میں ملک کی سب مقبول سیاسی جماعت بن گئی اور پنجاب سندھ اور وفاق اور بلوچستان میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی ، ہر طرف ق لیگ ہی نظر آنے لگی مگر 2008ء کے انتخابات میں سکڑ کر محض چند سیٹوں تک محدود ہوگئی اور 2013ء میں قومی اسمبلی میں صرف چودھری پرویز الٰہی اپنی نشست بچانے میں کامیاب ہوسکے ۔ پھر 2018ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے قومی اسمبلی میں 4سیٹیں لینے میں کامیاب ہوگئے ، پنجاب میں 10نشستوں کے ساتھ سپیکر شپ کے بعد چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بننے میں بھی کامیاب ہوگئے ۔ مگر تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں مسلم لیگ ق دو حصوں میں بٹ گئی بلکہ یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ چودھری برادران کا خاندان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا، چودھری پرویز الٰہی عمران خاں کے ساتھ کھڑے ہوگئے تو چودھری شجاعت حسین پی ڈی ایم جماعتوں کے ساتھ جاملے، اس طرح چودھری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن گئے اور دوسری طرف چودھری شجاعت حسین کے بیٹے چودھری سالک حسین وفاقی وزیر بن گئے۔ چودھری برادران کی سیاست کا مرکز گجرات ہے اور گجرات میں مکمل طور پر ووٹ بینک چودھری پرویز الٰہی کے ساتھ ہے چودھری شجاعت حسین کے بیٹوں کی گجرات میں سیاسی پوزیشن مستحکم نہ ہے اور عملی سیاست میں انہوںنے پہلی بار حصہ لیا ہے، چودھری وجاہت حسین کے دوبارہ ق لیگ میں آنے سے آدھا گجرات پھر سے ق لیگ کا ہوگیا، چودھری پرویز الٰہی تحریک انصاف میں شامل ہوگئے ہوسکتا ہے کہ وقت آنے پر وہ بھی مسلم لیگ ق میں واپس آجائیں ۔ سابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور، عائشہ گلالئی اور اب پی ٹی آئی چھوڑنے والے بے شمار لیڈران بھی ق لیگ میں شامل ہوگئے تو مسلم لیگ ق پھر سے پنجاب میں تیسرے درجے کی سیاسی جماعت بن سکتی ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button