Column

آڈیو کا دور ختم ویڈیو کا شروع .. سید ہ عنبرین

سید ہ عنبرین

چند روز قبل اداکارہ رانی کی برسی تھی، وہ ماہر فن رقاصہ بھی تھیں، ان کے کریڈٹ پر درجنوں کامیاب فلمیں ہیں، وہ کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوئیں، میں نے انہیں آخری مرتبہ ایک قومی روزنامے کے دفتر میں دیکھا، ان کا فلمی کیریئر ختم ہوچکا تھا لیکن وہ اس دور میں بھی انتہائی جاذب نظر اور تروتازہ نظر آتی تھیں، شگفتہ مزاج رانی کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ نظر آتی تھی، فلم بینوں کو’’ امرائو جان ادا‘‘ میں ان کی پرفارمنس کبھی نہ بھولے گی، وہ محبت میں ناکامی کے بعد زہر کھا لیتی ہیں اور اپنے محبوب کے سامنے آخری رقص کرتے ہوئے سین کے آخری میں چکرا کر زمین پر گرتی ہیں، گانے کے بول ان کے لبوں پر ہوتے ہیں، آخری گیت سنانے کیلئے آئے ہیں، زہر اپنا کام کر جاتا ہے، وہ فلم کے ہیرو اور اپنے محبوب کے قدموں میں دم توڑ دیتی ہیں۔ اتفاق دیکھئے، انکی برسی والے دن عمران خان کے دیرینہ دوست اور تحریک انصاف کے بانی رکن عمران اسماعیل چند روز قید کے بعد رہا ہوکر ایک پریس کانفرنس میں نظر آئے، انہوں نے آغاز میں جو کچھ کہا اس کا مفہوم یہی تھا کہ وہ بھی آخری گیت سنانے کیلئے آئی ہیں۔ ان کی پرفارمنس اداکارہ رانی کے پائے کی تو نہ تھی لیکن سسکیاں، آہیں اور آنسو قریب قریب ویسے ہی تھے۔ وہ روتے ہوئے مجھے بالکل اچھے نہیں لگے بلکہ بہت برے لگے۔ روتی ہوئی تو صرف عورتیں اچھی لگتی ہیں جن کے آنسو رخساروں پر ڈھلکتے ہوئے میک اپ پر ایک لکیر اس طرح کھینچتے ہیں کہ نقل حسن کا پردہ چاک ہوجاتا ہے، جن مردوں نے آخری پرفارمنس میں قوم کو رو کر دکھانا ہوتا ہے ان سے درخواست ہے کہ رونے دھونے سے پہلے وہ بھی کسی بیوٹی پارلر سے میک اپ کرا کر آیا کریں تاکہ پرفارمنس شروع ہونے سے قبل ہی معلوم ہوجائے کہ وہ مرد نہیں تقریباً عورت ہی تھے۔ کئی برس تک بلو کے گھر جانے اور ٹکٹ کٹا کر لائن بنانے کا درس دینے والے ابرارالحق بھی اقتدار کی بلو کے گھر سے رخصت ہوتے ہوئے روتے نظر آئے، یہ سب دیکھ کر حیرانی ہوئی اور علم میں اضافہ ہوا کہ سیاسی جماعت سے قطع تعلق کرتے ہوئے رونا آج کل کا فیشن بن چکا ہے، ابرار الحق کو یہ بھی شکوہ ہے کہ طویل وابستگی کے باوجود ان کی جماعت تحریک انصاف نے انہیں سیاسی لیڈر کے
طور پر قبول نہیں کیا، ایک تقریب میں انہیں سٹیج سیکرٹری نے گلوکار ابرار الحق کہہ کر سٹیج پر بلایا تو انہوں نے اس کا برا منایا۔ تقریب میں عمران خان موجود تھے، انہوں نے جواب دیا، ابرار الحق تم اس وقت تک گلوکار ہی کہلائو گے جب تک الیکشن میں کامیابی حاصل نہیں کرتے، یاد رہے ابرار الحق نے تین مرتبہ الیکشن لڑا، انہیں تینوں مرتبہ اس میں شکست ہوئی، خان کا ووٹ بھی انہیں نہ جتوا سکا، وہ اپنا آخری الیکشن بھی بری طرح ہمارے جس کے نتیجے میں عمران خان وزیراعظم بنا۔
تحریک انصاف سے تحریک علیحدگی میں ایک عجیب بات سامنے آئی وہ یہ کہ اس سے تعلق رکھنے والی اکثر شخصیات یا ان کے خاندان میں کسی نہ کسی کو کینسر ہے، اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس مرض سے محفوظ رکھے، خان حکومت اگر ختم نہ ہوتی یا آئندہ الیکشن بھی جیت جاتی تو اس راز پر پردہ ہی پڑا رہنا تھا، عین ممکن ہے اقتدار اس مرض کیلئے دوا کی حیثیت رکھتا ہو۔
اقتدار ختم ہوا، احتجاج نے تخریب کاری کا رنگ اختیار کیا، مقدمات بنے، پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو ملیکہ صاحبہ نے بتایا کہ وہ ایک ایئر فورس آفیسر کی بھتیجی ہیں اور سویلین سے زیادہ فوجی ہیں، مزید یہ کہ ان کا تیرہ برس کا ایک فرزند ہے جسے کینسر ہے، اگر واقعی ایسا ہے تو ان کے لئے دعا اور مشورہ ہے کہ
اب باقی ماندہ زندگی میں وہ سیاست کا شوق نہ پالیں، ان کا وقت ان کے بچے اور شوہر کی امانت ہے۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار مسرت جمشید چیمہ نے اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ کر ایک پریس کانفرنس میں کیا، انہوں نے اس میں ویڈیو اپیل بھی چلوائی جس میں ان کے کینسر کے مریض کمسن بیٹے کی طرف سے ان کی رہائی کی اپیل کی گئی تھی، مجھے ان سے بھی ہمدردی ہے، مسرت جمشید چیمہ نے اعلان کیا کہ وہ تحریک انصاف اور سیاست کو ہمیشہ کیلئے خیر باد کہہ کر اپنا وقت اپنے بچے اور شوہر کو دینا چاہتی ہیں جبکہ جمشید چیمہ نے اعلان کیا کہ بنی نوع انسان کی خدمت سیاست کے علاوہ اور طریقوں سے بھی ہوسکتی ہے لہٰذا وہ اپنی آئندہ سیاست کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے البتہ رفاحی کاموں کے ذریعے عوام کی خدمت کرتے رہیں گے، ان میں یہ تبدیلی ان کی فیکٹری میں صرف ایک چھاپے کے بعد آئی ہے، سابق صوبائی وزیر اطلاعات فیاض چوہان کی پریس کانفرنس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ وہ اسی قسم کی تھی جیسی عید کے موقع پر نمائش کیلئے پیش کی جانے والی فلموں میں ایک فلم کھڑکی توڑ کہلاتی ہے اور بزنس کے تمام ریکارڈ توڑتی ہوئی سب کو پیچھے چھوڑ جاتی ہے، ایسی فلموں کی بڑی نشانی یہ سمجھی جاتی ہے کہ اس کی روٹین کی ٹکٹ تین یا چار گنا قیمت میں بلیک میں دستیاب ہو، فیاض چوہان خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن سکتے ہیں، فیاض چوہان صاحب نے یہ بتاکر اہل پاکستان کو حیران کر دیا کہ فساد کی جڑ ہی عمران خان تھے، وہ عقل سے بے بہرہ اور گھوڑے گدھے میں تمیز نہ رکھنے کی صلاحیتوں سے مالا مال تھے، اسی صلاحیت نے انہیں ضائع کر دیا جبکہ عمران خان کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا ہے کہ انہیں ٹیم بنانا آتی ہے، انہوں نے ایسی ٹیم بنائی جس نے کرکٹ کا ورلڈ کپ جیتا، یہ الگ بات ہے کہ کرکٹ کی سمجھ بوجھ رکھنے والے ان کے اس
دعوے پر دل کھول کر ہنستے ہیں کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ ہر ملک میں ہر کرکٹ بورڈ میں ٹیم بنانے کیلئے ایک ٹیم موجود ہوتی ہے جنہیں ’’ سلیکٹرز‘‘ کہا جاتا ہے، ٹیم وہ بناتے ہیں ، سلیکٹرز کبھی بھی آنکھیں بند کرکے ٹیم نہیں بناتے بلکہ وہ مخالف ٹیم کی بیٹنگ اور بولنگ لائن کو سامنے رکھ کر ایسے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم بناتے ہیں جو مخالف ٹیم کی حکمت عملی کا توڑ کر سکے، میدان سیاست میں ٹیم بنانے کا کام کافی حد تک سیاسی جماعت کے سربراہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے، عمران خان نے اپنی سیاسی زندگی میں کیسی ٹیم بنائی، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ مرکزی حکومت سے فراغت سے قبل ہی ان کے کھلاڑی کہتے پائے گئے کہ ہم قوم کی توقعات پر پورے نہیں اترے ہم ڈیلیور نہیں کر سکے، عمران خان واضح طور پر کہتے تھے کہ انہیں ایک ٹرم اور دی جائے تو پھر وہ اپنے کنٹینر پر کھڑے ہوکر کئے گئے وعدے پورے کر سکیں گے، انہیں اقتدار میں لانے والوں کو بخوبی اندازہ ہوچکا تھا کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچ سکے گی اور ناچنے کی کوششیں کرے گی تو نا صرف خود منہ کے بل گرے گی بلکہ ملک کو بھی اندھے کنویں میں گرا دے گی پس انہوں نے تیل پورا نہ کیا۔ تحریک انصاف کی ایک اور کھلاڑی کو پریس کانفرنس کا موقع نہیں مل سکا، انہوںنے گرفتاری سے قبل اپنے آڈیو پیغامات جاری کئے، وہ گرفتاری سے قبل ایک تصویر میں بہت خوبصورت لگ رہی ہیں، سیاہ رنگ کی جینز جیکٹ میں ملبوس تصویر میں سگریٹ تھامے ہوئے ہیں، گرفتاری کے بعد وہ عدالت میں شناخت کیلئے پیش ہوئیں تو سیاہ شلوار قمیض زیب تن کئے ہوئے جبکہ ان کے ہاتھ میں سگریٹ کی جگہ تسبیح نظر آئی، کبھی وہ حلوے بکھیرتے نظر آئی تھیں لیکن عدالت پیشی کے موقع پر انہوں نے حجاب کر رکھا تھا، سابق وزیر اور مشیر خزانہ کی دختر کے بارے میں کسی کو خبر نہیں کہ وہ کسی عام شام حوالات میں بند ہیں یا انہیں رولنگ ایکٹ سے تعلق کی بنا پر ایئرکنڈیشنڈ رہائش میں منتقل کر دیا گیا ہے اور انہیں وہ تمام رعایتیں بھی مل جائیگی جوان جیسے کسی اور مجرم کو شاہد نہ مل سکیں۔ تیاریاں جاری ہیں کہ ان کی غیر ملکی شہریت کو ان کے لئے ڈھال بنا کر پیش کیا جائے اور وہ اس ڈھال کی بدولت قانون کی زد سے محفوظ رہیں۔ الیکشن میں شکست کھانے کے باوجود وفاقی حکومت میں مشیر کا عہدہ پانے کے بعد صوبائی حکومت کی مشیر فردوس عاشق اعوان کئی ماہ قبل تحریک انصاف کے عشق سے کنارا کش ہوچکی تھیں۔ انہوں نے بھی موقعہ غنیمت جان کر تحریک علیحدگی میں اپنا حصہ ڈالا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ آئندہ بھی اپنے مخصوص دھواں دھار سٹائل میں تحریک انصاف اور اس کی قیادت کا کچا چٹھہ کھولتی نظر آئیں گی۔ وہ بشریٰ بیگم کی منظور نظر رہی ہیں، اسی وجہ سے عمران خان کی منظور نظر نہ بن سکیں، اب اپنے نئے مینڈیٹ کے مطابق وہ کئی زنانہ و مردانہ رازوں سے پردہ اٹھاتی نظر آئیں گی۔ ہر سیاسی جماعت میں شاہ سی زیادہ شاہ کا ایک وفادار ضرور ہوتا ہے، تحریک انصاف میں یہ مقام علی زیدی کو حاصل رہا۔ ایک موقعہ پر انہوں نے فرمایا کوئی میرے ماتھے پر گولی مارے گا تو تب ہی میں تحریک انصاف کو چھوڑوں گا۔ ان کے اقوال زریں میں سے یہ بھی ہے کہ میں اس روز تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کروں گا جس روز عمران خان تحریک انصاف چھوڑے گا۔ ان کے الفاظ کی بازگشت ابھی ختم نہ ہوئی تھی کہ گرفتاری کے چوتھے روز وہ بھی زاروقطار پریس کانفرنس کرتے نظر آئے اور انہوں نے اپنی طویل رفاقت توڑنے کا اعلان کر دیا، خان کی طرف سے مراد سعید کو مستقبل کا عظم رہنما قرار دینے کے اعلان کے بعد پت جھڑ میں تیزی آئے گی، اس محبت کا ذکر ریحام خان کی کتاب میں ملتا ہے، پس کسی کو اس کو اس خراج تحسین پر کوئی حیرانی نہیں ہوئی، تحریک انصاف نے ایک منفرد ریکارڈ قیام کیا ہے، چھبیس سال کی محنت سے تیار کردہ سیاسی جماعت چھ روز میں زمین بوس ہوگئی۔ آخری بات، آڈیو کا زمانہ ختم ہوا، ویڈیو کا دور شروع ہوا، افتخار درانی اور رابعہ ملک کی ویڈیو دیکھئے، صاف چلی شفاف چلی کا ماتم کیجئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button